اسلام آباد:سب سے پہلے اللہ کا شکرگزارہوں اورپھرساتھیوں اوراتحادیوں‌ کا:وزیراعظم قومی اسمبلی میں خطاب فرمارہےہیں ،اطلاعات کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ آزمائیشوں ، کرونا جیسی وبا سے محفوظ رکھنے اورپھرپاکستان کومعاشی دلدل سے نکالنے اورآج بجٹ پاس کروانے پر سب سے پہلے میں اللہ کا شکرادا کرتا ہوں اورپھراس کے بعد اپنے ساتھیوں ، اتحادیوں اور تمام پاکستانیوں کا جنہوں نے مشکل وقت میں ساتھ دیا دیا

وزیراعظم عمران خان نے خطاب کے شروع میں ہی ملک میں سیاسی استحکام پیدا کرنے اورجمہوریت کو مضبوط کرنے کے لیے تمام تراختلافات بھلاتےہوئے اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت دی ہے ، وزیراعظم نے خطاب کے آغاز میں اپوزیشن کو انتخابی اصلاحات پر مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں 1970 کے بعد تمام انتخابات متنازع رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے کوشش کی ہے کہ الیکشن کو قابل قبول بنایاجائے، ہم نے پوری اصلاحات کی ہے جس پر ابھی بحث نہیں ہوئی اور وقت آگیا ہے کہ الیکشن لڑیں لیکن فکر نہ ہو کہ مجھے دھاندلی سے ہرادیا جائے گا۔

وزیراعظم کا کہنا تھاکہ پہلے دن تقریر کرنے کی کوشش تو تقریر نہیں کرنے دی گئی، ہم نے 133 میں سے 4 حلقے ڈیمانڈ کیے تھے، عدالت میں جا کر کیس لڑکر وہ حلقے کھلے، 2013 کے الیکشن پر جوڈیشل کمیشن کی سفارشات ہیں، ہم اس نتیجے پر آئے کہ ای وی ایم لائی جائے، اگر اپوزیشن کی اور تجویز ہے تو ہم سننے کیلئے تیار ہیں۔

ان کا کہنا تھاکہ ای وی ایم مشین ہوتو پولنگ ختم ہونے پر سب رزلٹ آجاتا ہے، اگر ہم اصلاحات نہیں کریں گے تو ہر الیکشن میں یہی سلسلہ ہوگا۔

وزیراعظم نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ گزشتہ 2 برس میں ہم نے بہت کوشش کی کہ اس ضمن میں کیا اصلاحات کی جاسکتی ہیں کہ جو بھی الیکشن ہارے اس نتیجے کو قبول کرے، ہم نے اس سلسلے میں تجاویز بھی دی ہیں لیکن ابھی تک ان پر اپوزیشن کی بحث نہیں ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ میں درخواست کروں گا کہ یہ حکومت و اپوزیشن کی بات نہیں ہے یہ پاکستان کی جمہوریت کا مستقبل ہے۔

عمران خان نے کہا کہ اپنی زندگی کے 21 سال میں بین الاقوامی کرکٹ کھیل کر گزارے تو میں اپنا تجربہ بتانا چاہتا ہوں کہ جب ہم کرکٹ کھیلتے تھے تو ملک اپنے اپنے امپائر کھڑے کرتے تھے اور جو ہارتا تھا وہ کہتا تھا کہ امپائروں نے ہمیں ہرادیا لیکن پاکستان وہ ملک تھا جس نے کرکٹ کی تاریخ میں پہلی مرتبی نیوٹرل امپائر کھڑے کیے تھے اور اب یہ مسئلہ ختم ہوگیا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ اب یہ وقت آگیا ہے کہ ہم الیکشن لڑیں اور کسی کو یہ فکر نا ہو کہ دھاندلی سے ہرادیا جائے گا۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ پہلے دن جب میں قومی اسمبلی میں تقریر کرنے کھڑا ہوا تھا تو اپوزیشن نے تقریر نہیں کرنے دی تھی اور انہوں نے کہا تھا کہ الیکشن ٹھیک نہیں ہوئے، اگر الیکشن ٹھیک نہیں ہوئے تے تو انہیں بتانا چاہیے تھا کہ کیسے ٹھیک نہیں ہوئے۔

وزیراعظم عمران خان نے مزید کہا کہ جب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ الیکشن ٹھیک نہیں ہوئے تو ان کے میڈیا اور عوام نے کہا کہ اس بات کا ثبوت دیں۔

انہوں نے کہا کہ جب 2013 میں ہم نے کہا تھا کہ الیکشن درست نہیں ہوئے تو 133 میں سے 4 حلقوں کا مطالبہ کیا تھا کہ ان کا آڈٹ کیا جائے لیکن ان 4 حلقوں کو نہیں کھولا گیا تھا جس کے بعد 2 سے ڈھائی سال بعد کیس لڑکر ہم نے وہ حلقے کھلوائے اور نتائج میں دھاندلی پائی گئی تھی۔

عمران خان نے کہا کہ میں اپوزیشن سے کہنا چاہتا ہوں کہ اس مسئلے کا صرف ایک ہی حل ہے پروٹو ٹائپ الیکٹرانک ووٹنگ مشین(ای وی ایم) کیونکہ جب ووٹنگ ختم ہوتی ہے تو بٹن دباتے ہی نتائج فوراً سامنے آجاتے ہیں، اس طرح ڈبل اسٹامپس، تھیلیاں کھلے ہونے کے مسائل ختم ہوتے ہیں اور جو بھی اعتراض کرنا چاہے وہ اٹھاسکتا ہے۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ اگر اپوزیشن کے پاس کوئی اور تجویز ہے تو ہم وہ سننے کے لیے تیار ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ اگر اصلاحات نہیں کی جائیں گی تو یہ مسئلہ ہر الیکشن میں آئے گا جیسا کہ سینیٹ اور ضمنی انتخابات میں ہوا۔

بجٹ 22-2021 سے متعلق وزیراعظم نے کہا کہ میں شوکت ترین اور ان کی ٹیم کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے پاکستان کے حوالے سے میری وژن کے مطابق بجٹ تیار کیا۔انہوں نے کہا کہ 25 برس قبل جب ہم نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی بنیاد رکھی جس کے محرکات میں صرف نظریہ پاکستان شامل تھا، جو قراردادِ مقاصد میں بھی واضح ہے کہ اسلامی، فلاحی ریاست ہے۔

وزیراعظم نے مزید کہا کہ اسلامی، فلاحی ریاست کا نظریہ مدینہ کی ریاست سے لیا گیا تھا، جو پہلی فلاحی ریاست تھی، یہ اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان اسی نظریے پر عمل کرے کیونکہ ہم اس سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں تو ہم پاکستان کے نظریے سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب ہماری حکومت آئی تو ہمیں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا مسئلہ درپیش تھا، جو ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ تھا اور اس کی وجہ سے ہماری کرنسی خطرے میں تھی، ڈالرز کی کمی تھی جس کی وجہ سے ڈالر نے اوپر جانا ہی تھی۔

وزیراعظم نے کہا کہ اتنے بڑے بحران میں ہماری ٹیم نئی تھی، تجربہ نہیں تھا لیکن ہم نے اپنی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے بہت مشکل اور تکلیف دہ قدم اٹھائے تھے۔

انہوں نے ملک کو درپیش مالی مسائل کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ جس طرح ایک گھر مقروض ہوجاتا ہے، آمدنی اور خرچے میں بڑا خسارہ ہوجاتا ہے، لوگ پیسے مانگنے کے لیے آرہے ہیں کیونکہ قرضے لیے ہوئے ہیں، وہ صرف 2 چیزیں کرسکتا ہے اپنے خرچے کم کرتا ہے اور آمدنی بڑھانے کی کوشش کرتا ہے، جب خرچے کم کرتا ہے تو تکلیف ہوتی ہے۔

وزیراعظم نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اسی طرح ہمیں بھی مشکل فیصلے کرنے پڑے، عوام کو تکلیف ہوئی اور کئی ابھی بھی تکلیف سے گزر رہے ہیں لیکن جب ایک ملک مقروض ہوجائے اور مشکل میں پڑجائے تو اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ‘اس دوران ہماری معاشی ٹیم نے جو فیصلے کیے اس پر مجھے خوشی ہے، دنیا میں باہر گئے مالی مدد طلب کی، میں متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور چین کا مشکور ہوں کہ انہوں نے ہمیں ڈیفالٹ سے بچایا’۔

Shares: