اسلام آباد:بینک دولت پاکستان نے جمعرات کو پاکستانی معیشت کی کیفیت پر پہلی سہ ماہی رپورٹ جاری کر دی۔
رپورٹ کا تجزیہ اور معاشی امکانات جولائی تا ستمبر2021ء کے ڈیٹا پر مبنی ہیں اور انہیں نومبر2021ء کی مدت تک دستیاب ڈیٹا کو استعمال کرتے ہوئے حتمی شکل دی گئی ہے
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پہلی سہ ماہی کے دوران پاکستان کی معیشت نے مالی سال21ء میں شروع ہونے والی نمو کی رفتار کو برقرار رکھا۔اس نمو کی رفتار میں طلب اور رسد دونوں عوامل نے اہم کردار ادا کیا۔ بڑے پیمانے کی اشیاء سازی میں وسیع البنیاد توسیع اور خریف کی فصلوں کے بہتر نتائج سازگار رسدی حرکیات کے عکاس تھے جبکہ جلد فروخت ہونے والی اشیا اور کاروں، درآمدی حجم، توانائی کے استعمال اور صارفی قرضوں کی مضبوط فروخت سے طلب میں تیزی کی نشاندہی ہوئی۔ بلند معاشی سرگرمی نے ٹیکس محاصل میں بہتری اور کم مالیاتی خسارے میں کردار ادا کیا۔ تاہم، اجناس کی عالمی قیمتوں میں خاصے اضافے نے مہنگائی کے دباؤ کو بڑھا دیا اور جاری کھاتے کا خسارہ بڑھ گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جولائی تا ستمبر2021ء کی مدت میں گنجائشی پالیسی کے تسلسل، برآمدی فرموں کے لیے اسٹیٹ بینک کی دستیاب ری فنانس اسکیموں اور نمو پر مبنی مالی سال22ء کے بجٹ کی بدولت ایل ایس ایم کے شعبے کی نمو بڑھ کر5.1فیصد ہو گئی جو گذشتہ برس4.5فیصد تھی۔ وہ صنعتیں جنہیں مالیاتی اعانت سے براہ راست فائدہ پہنچا ان میں گاڑیوں اور تعمیرات اور اس سے منسلک شعبوں نے بھی بلند نمو درج کی۔ زراعت کے شعبے میں چاول، گنے اور کپاس کے ابتدائی تخمینے پیداوار کی حوصلہ افزا سطح کو ظاہر کرتے ہیں۔ زری لحاظ سے سستے قرضوں کی دستیابی نے خصوصاً بڑھتی ہوئی خام مال کی لاگت کے سبب صنعتی سرگرمی کو بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
مالی سال22ء کی پہلی سہ ماہی میں کمرشل بینکوں کی جانب سے نجی شعبے کے کاروباری اداروں کو دیئے گئے قرضوں میں177.4ارب روپے کا اضافہ ہوا جبکہ گذشتہ برس101.4ارب روپے کی خالص واپسی ہوئی تھی۔ ٹیکسٹائل، خوردنی تیل کمپنیوں اور آئل ریفائنریوں نے جاری سرمائے کے بھاری قرضے لیے، جس کا جزوی سبب درآمدی خام مال کی بلند لاگت تھی۔ ٹیکسٹائل جیسی برآمدی نوعیت کی صنعتوں کے لیے برآمدی فنانس اسکیم اور طویل مدتی فنانسنگ سہولت کے ساتھ عارضی معاشی ری فنانس سہولت کے تحت قرضوں کی فراہمی سے انہیں جاری سرمائے اور معین سرمایہ کاری کے مقاصد سے رعایتی نرخوں پر قرض لینے کا موقع ملا۔
رپورٹ میں توجہ دلائی گئی کہ مالی سال 22ء کی پہلی سہ ماہی کے دوران اس بڑھی ہوئی اقتصادی سرگرمی کے ساتھ ساتھ درآمدات میں اضافے، کارپوریٹ انکم ٹیکس سے استثنیٰ واپس لیے جانے، ملکی قیمتوں میں اضافے، ٹیکس وصولی کی کوششوں اور بجٹ میں بعض اقدامات کے نتیجے میں ایف بی آر کے ٹیکسوں میں 38.3 فیصد کی معقول نمو ہوئی۔ بلند محاصل سے غیر سودی اخراجات میں خاصے اضافے کا موقع ملا جن میں اہم مدّات ترقیاتی اخراجات میں اضافہ، کووڈ 19 ویکسین کی خریداری، اور بجلی کے شعبے کو زرِ اعانت ہیں۔ چنانچہ بنیادی توازن میں فاضل رقم موجود رہی۔
ملکی اور بیرونی دونوں قرضوں پر سودی ادائیگیاں کم ہونے سے مالیاتی پوزیشن کو بھی ٹھوس فوائد پہنچے۔ نتیجتاً مالیاتی خسارہ جو گذشتہ سال جی ڈی پی کا 1.0 فیصد تھا، گھٹ کر 0.8 فیصد رہ گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ رپورٹ میں یہ بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ اس عرصے کے دوران کئی چیزیں ان کُلی معاشی فوائد کے آڑے آئیں جن میں اجناس کی عالمی قیمتوں اور نقل و حمل کے اخراجات میں نمایاں اضافہ شامل ہیں۔
صارف اشاریہ قیمت مہنگائی گذشتہ سال کی نسبت کچھ کمی کے باوجود مالی سال 22ء کی پہلی سہ ماہی کے دوران 8.6 فیصد کی بلند سطح پر رہی۔ عمومی مہنگائی میں سب سے بڑا حصہ دار غذائی گروپ تھا کیونکہ خوردنی تیل، پولٹری، گندم اور شکر کی قیمتیں بڑھتی رہیں۔ دریں اثنا، تیل کے عالمی نرخوں میں تیز رفتار اضافہ توانائی کی بلند مہنگائی کا سبب بنا حالانکہ جولائی تا ستمبر 2021ء کے دوران حکومت نے تیل کے اضافی نرخوں کے جزوی انجذاب کا فیصلہ کرتے ہوئے ٹیکس کم کئے تھے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مالی سال 22ء کی پہلی سہ ماہی میں ہونے والی پیش رفتیں اجناس کی عالمی قیمتوں کے دھچکوں کے لیے پاکستان کی حساسیت اور شعبہ جاتی سطح پر مستقل پالیسیوں کی ضرورت کو اجاگر کرتی ہیں۔ پام اور سویا بین کے تیل کی عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی قیمتوں کے بیرونی کھاتے اور مہنگائی پر سنگین مضمرات کے پیشِ نظر، رپورٹ میں شامل خصوصی سیکشن پاکستان میں ملکی روغنی بیجوں کے شعبے کا تجزیہ کرتا ہے۔