آزاد ملک کے 400آزاد باشندوں نے 14 اگست 2021 کو مینار پاکستان تلے جہاں آزادی کی بنیاد رکھی گئی تھی آزادی مناتے ہوئے عائشہ نامی لڑکی کو اسکی مرضی سے حراس کیا اسکا لباس تار تار کرتے ہوئے اسکی عزت و انا کو مٹی میں ملاتے ہؤئے اپنے آزاد ہونے کا ثبوت دیا یہ اور بات کہ وہ سب عائشہ ہی کی دعوت پہ وہاں جمع ہوئے تھے ، اور ایک بار پھر ملک پاکستان کا سر شرم سے جھکایا گیا ۔

جی ہاں آزاد ، قانون کے ڈر سے آزاد ،ضمیر کی آواز سے آزاد ،احساسات سے آزاد، غیرت سے آزاد، اللہ کے خوف سے آزاد اور سب سے بڑھ کر مکافات عمل کے ڈر سے آزاد ان لوگوں نے یہ شرمناک کھیلا ، اور جلتی پہ تیل سستے چینلز کی ریٹنگ کی حوس نے ڈالہ ۔
یہ سب لکھتے ہوئے میرا قلم شرمسار ہےلیکن میں مجبور ہوں لکھنے پہ کہ اگر آج نہیں بولیں گے تو کل یہ چار سو سے چار ہزار ہونگے اور وطن عزیز میں ان گدھوں کی تعداد بڑھتی چلی جائے گی اور اس پاک دھرتی کو اپنی نحوست سے آلودہ کرتے رہیں گے ۔
سوال یہ نہیں کہ وہ اکیلی کیوں تھی، سوال یہ بھی نہیں کہ اسکا محرم ساتھ نہیں تھا،مجھے اس کے نازیبا لباس پہ بھی کوئ اعتراض نہیں ہے سوال تو یہ ہے کہ 14 اگست کو یہ واقعہ پیش آتا ہے لیکن کہیں اسکا زکر نہیں ہوتا کوئ ویڈیوں سامنے نہیں آتی عائشہ اکرم نامی خاتون 15 اگست کو انسٹا گرام پر اپنی تصاویر شئیر کرتی ہیں لیکن اس واقعہ کا کوئ زکر نہیں ملتا کیوں؟؟؟
17 اگست کو اچانک سے تمام مواد سوشل میڈیا پہ شائع ہوتا ہے اور عائشہ مظلومیت کی تصویر بنی آنسو ں بہاتی سستے چینلز کی ریٹنگ بڑھاتی نظر آتی ہیں کیوں؟ 14 اگست کو ہی یہ خبر کیوں نہیں پھیلی؟؟ کیوں ایف آی آر نہیں کٹوائ گئ ؟ چلے مان لیتی ہوں کہ لڑکی تھی عزت کے ڈر سے لوگوں کے ڈر سے خاموش تھی لیکن وہاں موجود تمام لوگ کیسے خاموش تھے ؟ ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہاں موجود کافی لوگوں نے اپنے کیمروں میں اس گھناؤنے منظر کو قید کیا تھا 14 اگست سے لیکر سترہ اگست تک کیوں کوئ ویڈیوں منظر عام پہ نہیں آئ اور 17 اگست کو ایک دم سے ساری ویڈیوز اپ لوڈ کردی گئ اور معصوم عوام کو الو بنایا ،سستی شہرت کے نشے میں پاگل کچھ لبرلز اور صحافیوں نے تو عرض پاک کے باشندے ہونے کو ہی شرمنگی کا باعث قرار دے دیا ،سب سے پہلے تو ان دیسی لبرلز کو ملک بدر کرنا چاہیے جو جس مٹی کی بدولت آج دو لفظ بولنے کے قابل ہیں اسی کے خلاف ہرزہ سرائ کرتے ہیں

ان تمام باتوں سے دو ہی پہلوں نکلتے ہیں کہ یا تو یہ سارا تماشہ سستی شہرت کیلیے رچایا گیا جس میں محترمہ خاصی کامیاب بھی رہی یا پھر اس تمام ڈرامے کے پیچھے ایسے ملک دشمن عناصر کا ہاتھ ہے جو اسی ملک کا کھاتے ہیں اور اسی ملک کا نام خراب کرتے ہیں
جو خود تو باہر کے ملکوں میں عیاشیاں کرتے ہیں اور یہاں عورت کارڈ کھیلتے ہوئے مکل و قوم کا نام داغدار کرتے ہیں ۔ان دونوں مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے بھی صرف عورت قصور وار نہیں ہے اس میں ملوث تمام بے غیرت مرد بھی برابر کے قصور وار ہیں ،جو پیسے کے لالچ میں یا زاتی حوس میں اس بے ہودہ ڈرامے کا حصہ بنے ،دوسروں کی عورتوں پہ بری نظر رکھ کہ انہیں گدھ کی طرح نوچ کہ اپنی عورتوں کے متعلق یہ گمان کیوں رکھتے ہو کو ان کے ساتھ ایسا نہیں ہوگا؟ دنیا مکافات عمل ہے آج کسی کی بیٹی کو ننگا کرتے ہو مقصد کوئ بھی ہو چاہے اس عورت کی رضامندی بھی شامل ہو پھر بھی کل اپنی بیٹی کواپنےہی جسے کسی اور نامرد کے ہاتھوں بے لباس ہوتے دیکھنے کیلیے تیار رہو۔
بے شک یہ سارا ڈرامہ تھا وہ تمام مرد حضرات اس عورت کے کہنے پہ وہاں موجود تھے لیکن تمھاری غیرت تمھاری تربیت تمھارے ایمان کا کیا؟ کیا تمھاری اخلاقی اقدار اس قدر پست اور مادری تربیت اس قدر کمزور ہے کہ عورر کو دیکھتے ہی تمھارے اندر کا جانور تم پر غالب آجاتا ہے زرا سے پیسے کا لالچ تمہیں اچھے برے کی تمیز بھول جاتا ہے اور تم اس مملکت خداد جس کی بنیاد ہی لاالہ اللہ ہے کا نام خراب کرنے کیلیے تیار ہوجاتے ہو ۔

اوع جو لوگ اس تمام معاملے میں عمران خان کے اسلام اور پردے کے حوالے سے دیے گئے بیان کو گھسیٹ رہے ہیں انکو بتاتی چلوں کہ بے شک اسلام ہی راہ نجات ہے ،مکمل لباس اور حیا عورت کا زیور ہے ۔عمران خان نے مکمل لباس پہننے اور بے حیائ سے رکنے کی بات ضرور ہی جو صحیح بھی ثابت ہو رہی ہے
لیکن عمران خان نے یہ کہیں نہیں کہا کہ اسلام بے ہودہ کپڑے پہننے والی عورت کے کپڑے پھاڑنے کی اجازت دیتاہے ،
درحقیقت اسلام تنہا عورت کو دیکھ کے بھوکے کتوں کی طرح لپکنے کا نہیں بلکہ نگاہ جھکا کہ راستہ چھوڑنے کا حکم دیتا ہے ۔اگر اس تمام واقعہ کو سچ مان بھی لوں تو میرا دل نہیں مانتا کہ اتنے ہنجوم میں کسی کی ماں بہن بیٹی کو ان حالات میں پہنچاتے کسی ایک شخص کو بھی اپنے گھر میں موجود عورتوں کا خیال نہیں آیا ہوگا ،ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ ان گِدھوں کی بھیڑ میں کسی ایک کو بھی اپنے ایمان کا خیال نہیں آیا ،اسکی چینخیں سنتے ہوئے ،ویڈیوں بناتے ہوئے مکافات عمل کے ڈر نے کسی ایک کے قدموں کو زنجیر نا کیا ہو ؟
عام کہاوت ہے کہ پانچ انگلیاں برابر نہیں ہوتی اسی طرح وہاں موجود تمام مرد کیسے ایک جیسے ہو سکتے ہیں ،اگر اس ملک میں جگہ جگہ بھیڑیے گھات لگائے بیٹھے ہیں تو وہیں کچھ نیک لوگ بھی موجود ہیں جن کی بدولت یہ ملک قائم و دائم ہے
آج یہ ایک واقعہ ہے لیکن اگر ٹک ٹاک جیسی فضولیات پہ پابندی نہیں لگائ جاتی ،والدین اپنی اولاد کو اس گھٹیا فعل سے نہی روکیں گے اور سارا الزام ریاست کے سر ڈالتے رہیں گے تو کل کئ عائشہ اور حریم شاہ ہونہی سر بازار اپنی اور مملکت خدادا اس سوھنی دھرتی کی عزت تار تار کرتی رہیں گی اور ان میں سے کوئ آپ کی بیٹی ہوگی تو کوئ بہن تو کسی کہ آپ شوہر ہونگے تب آنسو نا بہائیے گا ، بس پاکستان اور عمران خان کو قصور وار ٹھرائیے گا اور تمام عمل کا اسی طرح دفاع کیجیے گا ۔
اس طرح کے فیک پراپگینڈے کی وجہ سے وہ تمام عورتیں جو واقع مظلوم ہوتی ہیں جن کے ساتھ واقع زیادتی ہوتی ہے وہ اپنا کیس لڑنے سے پہلے ہار جاتی ہیں خدارا ہوش کے ناخن لیں اپنا وقار مجروح نا کریں نا کسی دوسرے کو اس کی اجازت دیں
حکومت پاکستان کو چاہیے کہ اس واقعہ کی مکمل تحقیق کریں اور اس میں ملوث تمام لوگوں کو لڑکی سمیت کڑی سزا ملنی چاہیے تاکہ آئندہ کسی کی جرات نا ہو کہ وہ زاتی مفادات کی خاطر ملک پاکستان کا نام خراب کرنے کا ناپاک خیال بھی اپنے دل میں لائیں ۔
@_Ujala_R

Shares: