رابی پیرزادہ سےعامر لیاقت حسین، تک۔ فحش ویڈیوز کا لیک کیا جانا ایک معاشرتی ناسور بن چکا ہے۔جس سے نہ صرف ملک کی شوبیز انڈسٹری بلکہ بڑے بڑے سیاستدان اور بیوروکریٹ بھی محفوظ نہیں رہے. حال ہی میں ایک سے زیادہ سیاسی رہنماء بھی غیر اخلاقی مواد کے لیک ہونے کا سامنا کرچکے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ سوشل میڈیا نے عام آدمی کو اظہار رائے کی آزادی دی ہےمگر کسی بھی شخص کی پگڑی اچھالنا، قابل سزا جرم ہے جسکی آزادی نہ معاشرہ دیتا ہے اورنہ ہی قانون۔

پاکستان میں سائبر کرائم کے زمرے میں سخت ترین سزاؤں کے باوجود کسی بھی شخصیت کیلئےاس پرحملے کے بعد مجرم تک پہنچنا یا اس کی سزا کا تعین ہونا قابل عمل نہیں رہا۔
عام پاکستانی سائبر کرائم قوانین سے ناواقف ہے اور چاہتے ہوئے بھی مجرم کے خلاف قانونی چارہ جوئی نہیں کر پاتا۔

سوشل میڈیا کمپنیز کی پالیسی کے مطابق فحش مواد کی تشہیر مجرمانہ فعل ہے اور پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی فحش مواد کو روکنے کیلئے سرگرم عمل ہے،ان تمام پابندیوں کے باوجود فحش مواد کا پھیلاؤ جاری ہے اور کتنی ہی زندگیاں اس کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔کچھ عرصہ قبل پنجاب کے علاقہ قصور میں فحش ویڈیوز کے حوالے سے بہت بڑا سکینڈل بھی منظر عام پر آچھا ہے.
سوشل میڈیا پر جہاں غیر اخلاقی مواد شائع کیا جاتا ہے تو وہیں اس کی بھرپور مزمت بھی کی جانی چاہیے اورشوشل میڈیا پر فحش مواد کی تشہیر کے خلاف کمپین چلانی چاہیئے.اور ملک کے ذمہدار شہری کی حیثیت سے فحش مواد کی تشہیر کے خلاف عوام کی رہنمائی کی جانی چاہئے.خاص طور پر نوجوان نسل میں اس حوالے سے شعور پیدا کیا جانا چاہیئے.

Shares: