روزی گیبریل سے عائشہ اکرام تک تحریر: ڈاکٹر اسلام الیاس

0
75

کینیڈین سیاح اور وی لاگر روزی گیبریل نے لاہور سے گوادر تک کا سفر بغیر کسی سیکورٹی کے اکیلے کیا اور دنیا کو اپنے یو ٹیوب چینل سے یہ میسج دیا کہ پاکستان بہت محفوظ جگہ ہے اور پانچ ماہ کے سفر وسیاحت میں ایک مرتبہ بھی پاکستان کے کسی بھی مقام پر ان کے ساتھ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ اس کے بعد انہوں نے شمالی علاقہ جات کا بھی سفر کیا اور یہ بتلایا کہ جہاں بھی وہ گئیں، ان کی عزت کی گئی۔ ان کی بائیک خراب ہوئی تو فری ٹھیک کر دی گئی۔ کہیں رات پڑ گئی تو فیملی نے مہمان نوازی کی۔ اس خاتون نے 14 ماہ پاکستان میں گزارے۔ اس قدر متاثر ہوئی کہ اسلام قبول کیا اور ایک پاکستانی سیاح سے شادی بھی کر لی۔

اب تصویر کا دوسرا رخ دیکھیں کہ ایک ٹک ٹاکر خاتون عائشہ اکرام 14 اگست 2021ء کو مینار پاکستان کے ساتھ ملحق گریٹر اقبال پارک میں اپنے چند دوستوں کے ساتھ ویڈیو بنانے جاتی ہے اور ایک ہجوم اس پر حملہ کر دیتا ہے۔ اس کے کپڑے پھاڑ دیتا ہے اور اس کو ہراساں کرتا ہے اور تقریبا اڑھائی گھنٹے تک اس کے جسم سے کھیلتا رہتا ہے۔ واضح رہے کہ لڑکی نے یہ دعوی نہیں کیا کہ اس کا ریپ ہوا ہے۔ البتہ اس نے یہ بیان دیا ہے کہ اس کو بالکل برہنہ کر دیا گیا تھا۔ لیکن واقعے کی جو ویڈیوز اور امیجز موجود ہیں، ان میں کسی سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی ہے۔ مبینہ ذرائع کے مطابق زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہو رہا ہے کہ لڑکی کے ساتھ زبردستی سلیفیاں لینے کے لیے دھکم پیل ہوئی اور اس دھکم پیل میں اس کے جسم کو اس کی مرضی کے بغیر ٹچ کیا گیا ہے۔ اس پر پولیس نے 400 افراد کے خلاف ایف آئی آر کاٹ لی ہے۔

روزی گیبریل اور عائشہ اکرام دونوں میں قدر مشترک یہ تھی کہ دونوں نے پردہ نہیں کیا ہوا تھا اور دونوں اپنے گھر سے باہر نکلی ہیں لیکن ایک کو معاشرے نے عزت دی اور دوسری کو ذلیل کر دیا۔ اس میں فرق کیا ہے۔ اس میں فرق عورت عورت کا ہے۔ روزی گیبریل پورے پاکستان کا اکیلے سفر کرتی ہے اور کوئی اسے دن کیا رات میں بھی ہاتھ تک نہیں لگاتا اور دوسری طرف ایک لڑکی کو دن دیہاڑے لاہور شہر کے ایک معروف پارک میں چار سو افراد کتوں کی طرح پڑ جاتے ہیں۔ آپ ان دونوں کیسز کی ویڈیوز اور امیجز دیکھیں گے تو فرق کھل کر سامنے آ جائے گا۔

روزی گیبریل جہاں گئی، اس نے مردوں سے فاصلہ برقرار رکھا اور انہیں واضح میسج دیا کہ ہمارے درمیان ایک حد قائم ہے۔ یہ پڑھی لکھی خاتون تھی اور سچی آرٹسٹ تھی۔ اسے مرد کی نظروں سے نہیں، سیاحت میں دلچسپی تھی لہذا لوگوں نے اس کی اور اس کے فن کی قدر کی۔ اس نے ہمیشہ بچوں اور عورتوں کے ساتھ تصاویر کھچوائیں اور انہیں پبلک کیا۔ دوسری طرف عائشہ اکرام کے بارے مبینہ ذرائع یہ کہتے ہیں کہ وہ ٹک ٹاکر تھی، اسے فالوورز چاہیے تھے۔ جس کو وہ ہجوم کہہ رہی ہے، یہ ہجوم نہیں تھا، اس کے فالوورز تھے جنہیں اس نے خود وہاں بلوایا تھا۔ اور پھر یہ ناخوشگوار واقعہ ہوا کہ جس کے بعد ایک دن میں اس کے فالوورز کی تعداد پچاس ہزار بڑھ گئی۔

تو بھئی عورت عورت کا فرق ہے۔ اس معاشرے کے مردوں کو عورت کے باہر نکلنے پر اعتراض نہیں اور نہ ہی اسے عزت دینے میں مسئلہ ہے۔ لیکن یہ معاشرہ اسی عورت کو عزت دیتا ہے جو خود سے عزت چاہتی ہو۔ جو عورت پہلے ہی مردوں کے ہاتھوں کھلونا بننے کو تیار ہو، ان کی گود میں چڑھ کر یا گلے میں بانہیں ڈلوا کر تصویریں کھچوائے۔ اور پھر سامنے موجود بعضوں کو کہے کہ تم صبر کر کے دیکھتے رہو تو مرد ایسی عورت کی عزت کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ ان کی فالووننگ سے ہی اس کی فیم کی جبلت پوری ہوئی ہے تو اب وہ چاہتے ہیں کہ بدلے میں وہ ان کی جبلت پوری کرے۔ یہ تو لین دین کا سودا ہے۔ اور یہی سب کچھ مبینہ ذرائع عائشہ اکرام کے حوالے سے نقل کر رہے ہیں۔

وینا ملک، قندیل بلوچ، حریم شاہ اور عائشہ اکرام کا رستہ بے حیائی کا رستہ ہے کہ جس کے ذریعے وہ مشہور ہونا چاہتی تھیں یا فیم چاہتی ہیں۔ حریم شاہ کو بھی دیکھ، آج کل شیشہ پیتی نظر آ رہی ہے۔ اس کے بعد دیگر منشیات اور ڈرگز کی بھی عادی ہو جائے گی کہ اس رستے کا انجام ہی یہی ہے حالانکہ یہ مدرسے کی پڑھی ہوئی ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا نے حسن وخوبصورتی میں لوئر مڈل کلاس کی خواتین کو بھی وہ فیم اور فالوونگ دلوا دی ہے جو کبھی ایلیٹ کلاس کی خواتین کا مقدر ہوا کرتی تھی تو لوئر مڈل کلاس کی لڑکیاں عورتیں اس فیم اور فالوونگ کے پیچھے پاگل ہو گئی ہیں۔

پہلے وقتوں میں ایلیٹ کلاس کی عورتوں کو یہ فیم اور فالوونگ اپنے حسن وجمال یا آرٹ کی وجہ سے حاصل ہوتا تھا لیکن اب یہی فیم اور فالوونگ معمولی حسن رکھنے والی لڑکیوں کو مردوں کو لبھانے سے حاصل ہو جاتا ہے۔ لیکن ایسی عورتوں کی بڑی فالوونگ معاشرے کا رذیل مرد ہوتا ہے جو ان کے وجود کو تک کر اپنی آنکھیں سیکتا رہتا ہے۔ اور ان عورتوں کو بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایسا ہی مرد ان کا فالوور ہے اور جس درجے کا یہ حسن رکھتی ہیں، اس میں ایسا ہی فالوور مل سکتا ہے اور اسی کو لبھا کر ہی فیم حاصل کی جا سکتی ہے۔ تو یہ ساری گیم مشہوری کی ہے اور سینٹر آف ایٹریکشن بننے کی ہے۔ کبھی معاشرے پر شیروں کا راج ہوتا تھا لیکن بھلا ہو سوشل میڈیا کا کہ جس نے گیڈروں کو بھی شیروں کی کھال پہنا دی اور انہوں نے اپنے آپ کو شیر سمجھ بھی لیا اور اب یہ شکوہ کر رہے ہیں کہ لوگ ہماری شیر کے جیسی عزت کیوں نہیں کرتے ہیں۔

بھئی، کیا بات کرتے ہو، مغرب کا معمولی درجے کا حسن تو وکٹم کو اب ریپ کی بھی یہ خوبصورت تاویل سجھا رہا ہے کہ میں اتنی خوبصورت تھی تو تبھی تو مرد اپنے جذبات کو قابو میں نہ رکھ پایا اور زبردستی پر آمادہ ہوا یعنی یہ میرے حسن کا کمال ہے کہ جس نے مرد کو جانور بنا دیا تھا۔ مردوں میں سیکس کی جبلت اور عورتوں میں مردوں کے لیے سینٹر آف ایٹریکشن بننے کی جبلت، نہیں معلوم کہ کون سی زیادہ ہے اور کون سی کم۔ دونوں جبلتوں کو جب جب اسلام کے دائرے میں رہتے ہوئے ایک رشتہ ازدواج کے ذریعے پورا کرنے کی کوشش کی گئی تو معاشرے میں خیر پھیلا۔ اور جب جب ان دونوں جبلتوں کو مذہب اور اسلام سے آزاد کیا گیا تو اس اس وقت معاشرے میں فتنہ اور فساد پھیلا۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ جتنا مرد کا اپنی سیکس کی جبلت کو آزاد چھوڑ دینا فتنہ ہے، اتنا ہی عورت کا اپنی سینٹر آف ایٹریکشن بننے کی جبلت کے لیے کچھ بھی کر گزرنا باعث فساد ہے۔ اور یہاں روزی گیبریل اور عائشہ اکرام کے واقعے میں تقابل کرتے ہوئے قرآن مجید کی ایک آیت سچ صادق آتی ہے: الْخَبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثَاتِ وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ۔ ترجمہ: خبیث مرد، خبیث عورتوں کے لیے اور خبیث عورتیں، خبیث مردوں کے لیے۔ اور پاکیزہ عورتیں، پاکیزہ مردوں کے لیے، اور پاکیزہ مرد، پاکیزہ عورتوں کے لیے۔ جو لڑکی حریم شاہ بننا چاہتی ہے تو اسے اس معاشرے میں ہر مرد بھی مفتی عبد القوی جیسا ہی ملے گا۔ تو پاکیزہ زندگی گزارو، تمہیں مرد بھی پاکیزہ ہی ملیں گے جیسا کہ روزی گیبریل کو پاکستان میں کوئی ایک مرد بھی ہراساں کرنے والا نہ ملا۔

Leave a reply