گالی پنجاب کا کلچر نہیں ہوسکتی . تحریر: احسن ننکانوی

0
82

شیخ روحیل اصغر نے کہا کہ گالی پنجاب کا کلچر ہے گالی پنجاب کا کلچر نہیں ہوسکتی کیونکہ پنجاب کا کلچر بہت ہی سوبر اور مہذبانہ ہے ۔
جہاں حضرت بلھے شاہ جیسے صوفی بزرگ ہو اس کا کلچر گالی کیسے ہو سکتا ہے۔

بلھے شاہ زہر دیکھ کے پیتا تے کی پیتا
عشق سوچ كے کیتا تے کی کیتا
دِل دے كے دِل لین دی آس رکھی
وی بلھیا پیار اہو جیا کیتا تے کی کیتا..
مسجد ڈھا دے مندر ڈھا دے
ڈھیندا جو کچھ ڈھا دے
اک بندے دا دِل ناں ڈھاویں
رب دلاں وچ رھیندا..

جس دھرتی میں حضرت وارث شاہ جیسے بزرگ سو رہے ہو تو وہ کلچر کیسے گالی ہو سکتا ہے۔

کئی بول گئے شاخ عمر دی تے،ایتھے آہلھناکسے نہ پایا ای

کئی حکم تے ظلم کما چلے،کس نے ساتھ لدایا ای

 وڈی عمر اولاد والا ،جس نوح  طوفان منگایا ای

ایہہ روح قلبوت دا ذکر سارا،نال عقل دے میل ملایا ای

اَگے ہیر نہ کسے نے کہی ایسی، شعر بہت مرغوب بنایا ای

وارث شاہ میاں لوکاں کملیاں نوں،قصہ جوڑ ہشیار سنایا ای

جہاں پر حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ جیسی بزرگ ہستیاں ہوں صوفی شاعر ہوں تو وہ کلچر کیسے گالی ہو سکتا ہے۔

الف اللہ چنبے دی بوٹی میرے من وچ مرشد لائی ہو
نفی اثبات دا پانی ملیا ہر رگے ہر جائی ہو
اند بوٹی مشک مچایا جاں پُھلن تے آئی ہو
جیوے مرشد کامل باہو جیں ایہ بوٹی لائی ہو​
الف اللہ پڑھیوں پڑھ حافظ ہویوں ناں گیا حجابوں پردا ہُو
پڑھ پڑھ عالم فاضل ہویوں بھی طالب ہویوں زر دا ہُو
سئے ہزار کتاباں پڑھیاں پر ظالم نفس نا مردا ہُو
باہجھ فقیراں کسے نا ماریا باُہو ایہ چور اندر دا ہُو..
جواب الف اللہ چنبے دی بوٹی
عشق دریا محبت وچ تھی مردانہ تریئے ہو
جتھے لہر غضب دیاں ٹھاٹھاں قدم اتھائیں دھرئیے ہو
اوجھڑ جھنگ بلائیں بیلے ویکھو ویکھ نا ڈریئے ہو
نام فقیر تد تھیندا باہو جد وچ طلب دے مریئے ہو
ایہ تن رب سچے دا حجرہ وچ پا فقیرا جھاتی ہو
ناں کر منت خواج خضر دی تیرے اندر آب حیاتی ہو
شوق دا دیوا بال ہنیرے متاں لبھے وست کھڑاتی ہو
مرن تھیں اگے مر رہے باہو جنہاں حق دی رمز پچھاتی ہو۔۔

جہاں پر حضرت بابا فرید شکر گنج جیسے بزرگ صوفی شاعر ہوں تو وہ کلچر گالی کیسے ہو سکتا ہے۔

فریدا،، خاک نہ نندیئے خاکو جیڈ نہ کوئ
جیوندیاں پیراں تھلے مویاں اوپر ہوئ
اٹھ فریدا وضو ساج صبح نماز گزار
جو سر سائیں نہ نیویں سو سر کپ اتار

جہاں پر حضرت میاں محمد بخش جیسے صوفیانہ شاعر ہوں تو وہ کلچر کیسے گالی ہو سکتا ہے۔۔

آدردا وچ خالی خانے پا وچ دخل مکاناں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محبوباں نوں وداع کریندیاں مشکل بچدیاں جاناں
؂بے شرمی دے حلوے نالوں ساگ جماں دا چنگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بے وفاسجن دے نالوں سنگ چُوہڑے دا چنگا
؂پاٹا چولا لیرولیر ، سی لیندا اے درزی۔۔۔۔۔۔ دل دا محرم کوئی نہ ملیا جو ملیا سو غرضی
؂ٹہا دے مسجد مندر ٹہادے جو کجھ ٹہیندا۔۔۔۔۔۔اک بندیاں دا دل نہ ٹہاویں ربّ دلاں وچ رہندا
؂حرص طمع دے گھوڑے چڑھیوں، ڈھلیاں چھڈ لگاماں۔۔۔۔۔۔ گھرنوں واگاں موڑ اسوارا ، سر تے پے گئیاں شاماں
؂گئی جوانی آیا بڑھاپا پیاں سب پیڑاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہن کس کم محمد بخشاؔ سونف جوائن ہریڑاں

جہاں پر باباگرونانک جیسے لوگ ہیں تو وہ کلچر کیسے گالی ہو سکتا ہے۔

گرو نانک کی تعلیمات سے متعلق دو نظریات پائے جاتے ہیں۔ ایک کی بنیاد، بقول کول اور سامبھی، مقدس جنم سکھی پر ہے جس کے مطابق سکھ مت 15ویں صدی میں اسلام اور ہندو مت کی ہم آہنگی کی کوشش یا معاشرتی احتجاج کی تحریک نہیں، بلکہ نانک کی تعلیمات اور سکھ مت خدا کی طرف سے الہام تھا۔ دوسرا نظریہ، بقول سنگھا، کہتا ہے کہ ’’سکھ مت اوتار کا نظریہ یا پیغمبری کا تصور پیش نہیں کرتا۔ بلکہ اس کا محور گرو کا تصور ہے جو خدا کا مظہر نہیں ہوتا اور نہ ہی پیغمبر ہوتا ہے۔ وہ تو بس ایک روشن روح ہوتا ہے۔‘‘
مقدس جنم سکھیاں نانک نے خود نہیں لکھی تھیں، بلکہ بعد ازاں ان کے پیروکاروں نے تحریر کی تھیں جن میں تاریخی صحت کا خیال نہیں رکھا گیا اور نانک کی شخصیت کو محترم بناکر پیش کرنے کی غرض سے متعدد داستانیں اور قصے تخلیق کیے گئے۔ کول اور سامبھی واضح کرتے ہیں کہ سکھ مت میں ’مکاشفہ‘ کی اصطلاح صرف نانک کی تعلیمات سے مخصوص نہیں، بلکہ اس میں تمام سکھ گروؤں کے علاوہ ماضی، حال اور مستقبل کے مرد و عورتوں کے اقوال بھی شامل ہیں، جنھیں مراقبے اور غور و فکر کے ذریعے الہامی طور پر علم حاصل ہوا۔ سکھ مکاشفات میں غیر سکھ بھگتوں کے اقوال بھی شامل ہیں، جو نانک سے کی پیدائش سے قبل ہی انتقال کر گئے تھے اور ان کی تعلیمات سکھ صحیفوں میں شامل ہیں۔ منڈیر کے مطابق، ادی گرنتھ اور جانشین سکھ گرووؤں نے مسلسل اس بات پر زور دیا کہ سکھ مت ’’خدا کی طرف سے آوازیں سننے کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ یہ انسانی دماغ کی خاصیت تبدیل کرنے سے متعلق ہے اور کسی بھی شخص کو کسی بھی وقت براہ راست مشاہدہ اور روحانی کاملیت مل سکتی ہے۔‘‘ گرو نانک نے تاکید کی کہ تمام انسان بغیر کسی رسوم یا مذہبی پیشواؤں کے، خدا تک براہ راست رسائی پاسکتا ہے۔

جہاں پر شاہ حسین جیسے بزرگ صوفی ہو تو وہ کلچر کیسے گالی ہو سکتا ہے۔
 ہوویں تاں عشق کماویں راہ عشق سوئی دا ٹکا،دھاگہ ہویں تاں ہی جاویں باہر پاک اندر آلودہ، کیہا توں شیخ کہاویں کہے حسین جے فارغ تھیویں،تاں خاص مراتبہ پاویں عاشق بننا ہے تو عشق حقیقی اختیار کر عشق کا راستہ سوئی کے سوراخ کی مانند ہے ، دھاگے کی۔۔

خواجہ غلام فرید جیسے بزرگوں کا کلچر کیسے گالی ہو سکتا ہے۔

 والیاں، ربّ لائے نیں ساون،
کائی مینہہ میہر دے وسّ گئے ۔

ٹر گئے یار دناں دے،
ن کوئی پتہ نشانی دسّ گئے ۔

اونہا ویلے سانوں چیتے آون،
جدوں نال اساں دے ہسّ گئے ۔

غلام فرید اوہ سجن ناہ نیں،
جہڑے چھوڑ ستی نوں نسّ گئے

جہاں پر ایسے بزرگ اور صوفی بستے ہو میری نظر میں اس زمین کا کلچر گالی نہیں ہوسکتا ۔ شیخ روحیل اصغر کو اس کا جواب دینا ہو گا یا اس کو معافی مانگنی چاہیے کیونکہ
پنجاب کے تمام پنجابیوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔
پنجابی لوگوں کی مادری زبان پنجابی ہے جو ایک ہند یورپی زبان ہے جو باشندگان پنجاب میں مروج ہے۔ پنجابی بولنے والوں میں ہندومت، سکھ مت، اسلام اور مسیحیت کے پیروکار شامل ہیں۔ اول الذکر مذہب کے علاوہ باقی تینوں مذاہب میں اس زبان کو خاص حیثیت حاصل رہی ہے۔ پاکستان اور بھارت میں کیے گئے مردم شماریوں کے مطابق دنیا میں پنجابی بولنے والوں کی تعدا 14-15کروڑ سے زائد ہے۔ اس کے علاوہ اردو،ہندی اور انگریزی بطور دوسری زبان استعمال کرتے ہیں۔
سرسوں کا ساگ مکھن اور مکئی کی روٹی سب سے مقبول پنجابی کھانا ہے اس کے علاوہ ساون میں مسی تندوری روٹی بھی شوق سے پکائی اور کھائی جاتی ہے
اس کے علاوہ یہاں کا لباس پگڑی اور شلوار قمیض ہے۔
پنجاب کے لوگ ہنس مکھ اور خوش مزاج اور مہمانوں کی مہمان نوازی کرنے والے ہیں اس بیان کے بعد شیخ روحیل اصغر کافی وقت تک سوشل میڈیا پر بھی تنقید کا نشانہ بنے رہے لیکن وہ اپنے موقف پر ڈٹے رہے تو ہماری ان سے گزارش ہے کہ وہ اپنے الفاظ واپس لے لیں اور تمام لوگوں سے معافی مانگیں جن جن کے جذبات مجروح ہوئے ہیں

تحریر: احسن ننکانوی

Leave a reply