گھریلو تشدد بل سینٹ سے منظور ہوکر آئینِ پاکستان کا حصہ بن چکا ہے۔ ایک خوشنما نام لیکن اس کے مندرجات دیکھیں تو یوں لگے گا کہ جیسے کسی سیکولر / لبرل مغربی فنڈڈ این جی او نے اپنا منشور ہی آئین پاکستان کا حصہ بنا دیا ہے۔ یہ خاندانی نظام، خونی رشتوں اور خصوصاً والدین اور اولاد، میاں بیوی کے درمیان تعلقات، خانگی زندگی کی بنیادیں ہلا کے رکھ دے گا۔
آئیے پہلے اس کے چیدہ چیدہ پوائنٹس دیکھتے ہیں۔ ان کی گہرائی میں جانا، مستقبل کی تصویر سوچنا آپ پر ہے۔
گھریلو تشدد بل کے اہم نقاط یہ درج ذیل ہیں.
🔥والدین کا اپنے بچوں کی پرائیویسی، آزادی میں حائل ہونا جرم ہوگا
🔥اولاد کے بارے میں ناگوار بات کرنا / شک کا اظہار کرنا بھی جرم ہوگا
🔥معاشی تشدد یعنی کسی بھی قسم کے اختلاف، نافرمانی، کسی بھی وجہ سے بچے کا خرچہ کم یا بند نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اگر ایسا کیا گیا تو یہ جرم ہوگا، اس پر سزا ملے گی
🔥جذباتی / نفسیاتی اور زبانی ہراسمینٹ کی اصطلاحات متعارف کرائی گئیں ہیں، یعنی کسی بھی بات کو ہراسمنٹ قرار دے سکتے ہیں
🔥خاوند کا دوسری شادی کا کہنا، خواہش کا اظہار کرنا جرم ہو گا، اسے گھریلو تشدد قرار دیا گیا ہے۔
🔥طلاق کی بات کرنا بھی جرم، جس کی سزا ہوگی، اسی طرح کوئی غصے والی بات، اونچی آواز میں بولنا، کوئی بھی ایسا جملہ جو کہ جذباتی، نفسیاتی یا زبانی اذیت کا باعث بنے وہ جرم تصور ہوگا
🔥اگر باپ نے مندرجہ بالا "جرائم” میں سے کوئی ایک سرزد کیا تو بطور سزا وہ اپنے گھر نہیں جاسکتا، اسے اولاد سے "محفوظ” فاصلے پر رہنا ہوگا۔ جی پی ایس کڑا پہننا ہوگا۔ کسی شیلٹر ہوم / یا تھانے میں سزا کاٹنی ہوگی
🔥کم سے کم 6 ماہ جبکہ 3 سال تک سزا سنائی جاسکتی ہے۔ ایک لاکھ تک جرمانہ بھی ہوگا، اگر جرمانہ نہ دیا تو مزید 3 سال قید
🔥اس میں ساتھ دینے والے کو بھی برابر کی قید ہوگی، یعنی ماں اور باپ دونوں مجرم بنیں گے😨
اس بل کو بجٹ اجلاس میں انتہائی عجلت میں منظور کیا گیا، تمام سیاسی جماعتوں نے حق میں ووٹ دیا، جبکہ صرف چند مذھبی جماعتوں نے محض علامتی طور پر مخالفت کی۔
صحافی اوریا مقبول جان کے مطابق اب تو والدین اس قدر قانون کے شکنجے میں ہوں گے کہ اگر بیٹا آوارہ پھرتا ہے ، نشہ استعمال کرتا ہے ، کسی بھی اخلاقی جرم میں مبتلا ہوتا ہے تو والدین اس کو روک نہیں سکیں گے ، اسی طرح بیٹی ، بیٹے کی ” آزادی ” اور پرائیویسی میں دخل دینا قابل سزا جرم بنا دیا گیا ہے ۔ یہ تو جیسے عورت مارچ کا ایجنڈا پاکستانی قانون بن گیا ہے ، مہر گڑھ ، الف اعلان ، عورت فاؤنڈیشن وغیرہ جیسی این جی اوز ایسے قوانین منظور کراتی ہیں ۔ معاشرے کے سنجیدہ حلقوں کو احساس تک نہیں کہ ان کے ساتھ کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے ۔ چند طاقتور این جی اوز کس طرح ملکی آئین میں اپنا ایجنڈا شامل کر رہی ہیں ۔
والدین کو مجرم بناکر پیش کرنا ایک ایجنڈا ہے ۔ اس کے کئی مقاصد ہیں ۔ جب ان قوانین کے تحت والدین جیلوں میں جائیں گے تو باقی رہ جانے والے اولاد پیدا کرنے کے بارے بھی سوچیں گے ۔ نوجوان شادی کے بندھن سے آزادی چاہیں گے ۔ اگر شادی ہو بھی گئی تو گھریلو زندگی ان قوانین کے شکنجے میں رہے گی ۔ اولاد ہوئی تو اس کے ہاتھوں جیل کی ہوا کھانے کا ڈر ہو گا ۔ کون یہ ذمہ داریاں نبھائے گا ۔ پھر وہی تصور جو عورت مارچ کے نعرے ہیں ۔ ذرا ان کو یاد کر لیں ۔ شادی کے بغیر زندگی ، گھر سنبھالنے سے انکار ، میرا جسم میری مرضی کے تحت اولاد سے انکار ، طلاق کی آسانی اور اس کو خوشنما بنا دینا ۔
مغربی معاشرت کی ایک جھلک کا تصور کریں
اس کے خاندانی نظام پر انتہائی گمراہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔یہ ایک مخصوص ایجنڈا ہے جس کے مقاصد بڑے واضح ہیں ۔اسی کے تحت شادی کی عمر بڑھانے، دوسری شادی کو مشکل بلکہ ناممکن بنانے ۔ طلاق کو قابل تعریف اور آسان بنانا۔ حدود آرڈیننس ، مردوں کو کڑے پہنانے کے قوانین، غیرت کے نام پر قتل کے حوالے سے قوانین کورٹ میرج کی آسانی، خواجہ سراؤں کے تحفظ ہم جنس پرستی اور اسقاط حمل کے قوانین میں سے کچھ بن چکے ہیں باقی پر کام جاری ہے ۔
ماروی سرمد جو ببانگ دہل کہتی ہے کہ یہ ملک سیکولر ہو کر رہے گا تو ایویں نہیں کہتی
کیونکہ اسے فنانسرز کی طاقت ، دولت اور ایجنڈے کا علم ہے وہ انہی کیساتھ ملکر کام کرتی ہے ۔
ان کو اپنے ایجنڈے کا پورا اندازہ ہے اور کام خاموشی سے جاری ہے.