ہم ایسے نوجوان جن کو سیاست کا شوق اور سیاسی قیادتوں بارے حال احوال جاننے کا چسکہ پڑ گیا ہے ، بہت مشکل اور کنفیوژ ہیں۔اخبارات ہو ،رسائل ہو،سوشل میڈیا ہو یا دوستوں کی مجلس ،موضوع اگر سیاست ہو تو لازما اخلاقی حدود کو پامال کیا جاتا ہے اور تو اور قومی اسمبلی کا اجلاس ہو رہا ہو ،کسی اہم موضوع پر بحث ہورہی ہو اور ایسے میں آپ کا شوق اور چسکہ اسمبلی کی آن لائیو ٹرانسمیشن دیکھنے پر مجبور کرے ،آپ ٹی ون آن کریں تو ایسی ہلٹر بازی ، الزام تراشی اور بھونڈے انداز میں گفتگو کی جارہی ہوتی ہے کہ خدا کی پناہ ۔پاکستانی ڈرامے مفت میں بدنام ہیں کہ فیملی کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھے جاسکتے ۔اپنا خیال تو ہے کہ قومی اسمبلی ،سینٹ اور دیگر صوبائی اسمبلیوں میں جو گفتگو کی جاتی ہے وہ بھی کسی صورت مہذب ماحول میں سنی نہیں جا سکتی ۔
ایک زمانہ تھا کہ کہا جاتا تھا کہ مہذب لوگوں کا سیاست سے کیا لینا دینا، وجہ شاید یہی تھی کہ سیاست میں دلیل اور موقف کی طاقت کی بجائے ترش روئی ،سخت انداز گفتگو اور کرخت لہجہ کی طاقت مانی جاتی ہے ۔ دوسروں پر الزام تراشی بھلے خود آپ میں کوئی صلاحیت نہ ہو۔آج کے پڑھے لکھے اور آکسفورڈ سے فیض یافتہ وزیر اعظم ہی کو لے لیں کہ دس منٹ بھی کسی ایسے موضوع پر بات نہیں کرسکتے جہاں دوسروں پر الزام اور تنقید نہ ہو۔کہاں آئیڈیلزم کی باتیں اور کہاں یہ طرز گفتگو، بہر حال آج کا نوجوان بھی سمجھتا ہے کہ مہذب لوگوں کا سیاست سے کیا کام ؟
اس انداز سیاست کا سب سے برا اثر ہماری نجی زندگی پر پڑا ہے ۔زندگی میں کچھ لمحات بہت حسین ہوتے ہیں ،یاد گار ہوتے ہیں ،سیاسی افراتفری اور شدت پسندی نے ان لمحات پر بھی گہرا اثر چھوڑا ہے ۔
مثلا میں یونیورسٹی کا طالب علم ہوں ۔ایک نارمل صلاحیت والا طالب علم جو کالج اور یونیورسٹی دور میں کہ ایک طالب علم تعلیم حاصل کرنے کی لذت میں سرشار رہنا چاہتا ہے اور تعلیم کے بعد بچا کچھا وقت قہقہوں ،کھیل کود اور دوستوں کی مجلس میں گذارنا چاہتا ہے ۔صحت مند اور مثبت مباحث کا حصہ بننا چاہتا ہے ۔لیکن جب کبھی یونیورسٹی سطح پر کسی ایسی ایکٹویٹی کے انعقاد کی بات آئی ،تو یہی سوال اٹھا کہ شرکاء مجلس کون ہو ؟ وہی پارٹی بازی کہ فلاں پارٹی کی لوگ ہو اور فلاں کے نہیں ،پھر جیسے تیسے کرکے مجلس منعقد بھی ہوتی ہے تو وہی الزامات کہ تمھارے لیڈر نے یہ کیا اور میرے لیڈر نے یہ ۔۔یوں کسی مثبت بحث کے بغیر مجلس ختم ۔
میں پشتون دیہاتی ماحول میں پلا بڑھا ہوں،ہمارے ماحول میں مسجد اور حجرہ بڑی اہمیت رکھتی ہے ۔ محلے محلے ججروں کا رواج صدیوں پرانا ہے ۔محلے کے جوان ،بوڑھے ادھیڑ عمر مغرب یا عشاء کے بعد ان حجروں میں آتے ہیں ،گپ شپ کی مجلس لگتی ہے ،بزرگ اپنے تجربوں سے آگاہ کرتے ہیں ،نوجوان اپنی تعلیم پر گفتگو کرتے ہیں ،ملازم پیشہ اپنی دلچسپی کے موضوعات پر بات چیت کرتے ہیں ،تاجر اور کسان اپنی اپنی بات کرتے ہیں ۔بنیادی طور حجروں کا یہ ماحول سکول یونیورسٹی کی طرح روایتی تعلیمی ماحول تو نہیں ہوتا لیکن ان حجروں کا مستقل حاضر باش عملی زندگی میں بہت کچھ سیکھ چکا ہوتا ہے۔لیکن یہ تب کی باتیں ہیں جب ان حجروں میں منافرت نہیں تھی ،سیاست نہیں تھی ،اب تو یہ حجرے کم اور صوبائی اسمبلی کے اجلاس ایسے مناظر زیادہ پیش کرتے ہیں۔ایک ہی خاندان ، ایک ہی گھر میں بھائی بھائی کے تعلقات پر اس طرز سیاست نے گہرا منفی اثر چھوڑا ہے ۔
اب ذرا مسجد کی حالت کو دیکھیں ۔ کل کی خبر ہے کشمیر میں انتخابات ہورہے ہیں ۔علی امین نے گنڈا پور نے فائرنگ کردی ۔مریم نواز نے یہ کہہ دیا ،مراد سعید نے فلاں پر الزام لگادیا ،بلاول بھٹو نے عمران خان کو کشمیر فروش کہہ دیا اس حد تک تو سب برداشت ہے اور اب تو عادت بن چکی ہے ۔ لیکن گذشتہ کل کشمیر کے شہر راولا کوٹ کی خبر ہے۔جو ایک دوست نے واٹس اپ پر شئیر کی ہے “مرکزی جامع مسجد راولاکوٹ پی ٹی آئی کے حق میں تقریر کرنے پر نمازیوں کا رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین کے پیچھے نماز جمعہ پڑھنے سے انکار کر دیا مسجد میں شور شرابہ اور ھنگامہ آرائی اور مولانا عبدالخبیر آزاد نماز جمعہ چھوڑ کر فرار ھوگی ت ، بمشکل جان بچا کر بھاگ نکلے بعد میں ھنگامہ آرائی رکنے پر کچھ لوگوں نے نماز جمعہ دوسرے مولوی صاحب کے پیچھے ادا کی اور کچھ لوگ بغیر جمعہ کی نماز ادا کئے مسجد سے چلے گئے یہ اپنی نوعیت عجیب اور پہلا واقعہ راولاکوٹ کی کسی مسجد میں پیش آیا جس پر افسوس کا اظہار کیا جاتا ھے اور مذمت بھی کی جاتی ھےواقعہ کی تفصیلات سے آگاہی کے لئے راولاکوٹ کے آج بروز ہفتہ کے اخبار پرل ویو اور دیگر ملاحظہ کریں یا مسجد میں موجود مقامی نمازیوں سے رابطہ کریں”
حقیقت یہ ہے کہ اسمبلی میں گالم گلوچ ، اب سر عام فائرنگ اور اب مسجدوں میں یہ سیاست بازی ہمارے معاشرے کی اخلاقی کمزوری کی علامات ہیں ،معاشی کمزوری کے اتنے نقصانات نہیں ، دفاعی کمزوری کے بھی اتنے دیرپا نقصانات نہیں ہونگے ۔لیکن اخلاقی کمزوری معاشروں کے وجود کو ختم کردیتی ہے ۔ہمارے سیاستدانوں کو سوچنا ہوگا کہ کہیں وہ ملک کو معاشی اور دفاعی لحاظ سے کمزور کرنے کے بعد دانستہ یا نادانستہ اخلاقی کمزوری کے جرم کے مرتکب تو نہیں ہورہے ؟