گیتاکے والدین کی تلاش میں بڑی حد تک کامیابی

0
113

پاکستان سے ساڑھے پانچ سال قبل بھارت واپس جانے والی گونگی اور بہری لڑکی گیتاکے والدین کی تلاش میں بڑی حد تک کامیابی مل گئی ہے۔ بھارتی ریاست مہاراشٹر کے ضلع پربھانی کے علاقہ جنتور کی ایک خاتون مینا پندھارے نے دعوی کیا ہے کہ گیتا اس کی بیٹی ہے۔ اس نے گیتا کی جو جسمانی نشانیاں بتائی ہیں وہ بھی درست ثابت ہوگئی ہیں جب کہ گیتا اپنے رہائشی علاقہ کے بارے میں جو کچھ بتاتی رہی ہے وہ بھی مینا پندھارے کے گھر کے اردگرد درست ثابت ہورہی ہیں۔

تفصیلات کے مطابق مینا پندھاری نے بتایا کہ گیتا کے پیٹ پر جلنے کا نشان ہے جو جو گیتا کے پیٹ پر اسی جگہ موجود ہے جہاں مینا بتارہی ہے۔ اس کے گھر کے نزدیک گنے کے کھیت بھی ہیں جب کہ وہاں دریا بھی موجود ہے۔ یہ سب نشانیاں گیتا نے بتائی تھیں۔ بھارےی حکام اب جلد ہی دونوں کے ڈی این اے ٹیسٹ کروانے کی تیاریوں میں ہیں اور اگر یہ ٹیسٹ میچ کر گیا تو گیتا کو مینا کے حوالے کردیا جائے گا اور یوں گیتا کو والدین سے ملانے کا جو وعدہ آنجہانی سشماسوراج نے گیتا سے کیا تھا وہ پورا ہو جائے گا۔

گیتا کی عمردس سال تھی جب 2000 میں وہ امرتسر میں غلطی سے سمجھوتا ایکسپریس میں سوار ہو کر لاہور پہنچ گئی تھی اور ریلوے اسٹیشن پر بے یارومددگار پھر رہی تھی کہ پاکستان رینجرز نے اسے تحویل میں لے لیا جہاں اس سے تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ وہ نہ تو سن سکتی ہے اور نہ ہی بول سکتی ہے۔ رینجرز حکام نےاسے ایدھی فاونڈیشن کے سپرد کردیا جہاں عبدالستار ایدھی نے اسے اپنی بیٹی بنا لیااوراسے ایک دردمند شخص کے پاس رہنے کے لئے بھیج دیا۔

اسی دوران پاکستان نے بھارتی حکام سے رابطہ کیا تو بھارت میں کئی خاندانوں نے دعویٰ کیا کہ وہ ان کی بیٹی ہے۔ لیکن جب ان کی تصاویر پاکستان میں بھارتی ہائی کمیشن کی وساطت سے گیتا کو دکھائی جاتیں تو وہ انہیں پہچاننے سے انکار کر دیتی۔ بالآخر ایک فیملی کو گپتا نے شناخت کرلیا جس کی بنیاد پر بھارتی حکام نے گپتا کی سفری دستاویز تیار کیں اورآخرکار 26اکتوبر 2015کو اس وقت کی بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج گیتا کو بھارت لے جانے میں کامیاب ہوگئیں۔

بھارت پہنچ کر گیتا نے اس فیملی کو بھی اپنا ماننے سے انکار کردیا جس کے بعد سشما سوراج نے گیتا کو بھارت کی بیٹی قرار دیااور اس سے وعدہ کیا کہ وہ بھارت بھر میں اس کے حقیقی والدین کو تلاش کریں گی۔ سشماسوراج نے گیتا کو سرکاری سرپرستی میں چلنے والی ایک این جی او کے سپرد کردیا جہاں اسے گونگے بہرے بچوں کے اسکول میں داخل کرادیاگیا۔ اسی دوران گیتا کے والدین کی تلاش جاری رہی تاہم سشماسوراج کی موت کے بعد یہ تلاش رک گئی۔

گیتا اس وقت بھی ریاست مدھیہ پردیش کے شہر اندور میں اسی این جی او کے پاس رہ رہی ہے اور اس وقت اس کی عمر تیس برس ہے۔چند دن قبل گیتا کے والدین کی دوبارہ تلاش شروع کی گئی اور اسی سلسلے میں گیتا حیدرآباد کے شہر بسار ٹاؤن پہنچی جہاں پولیس کی مدد سے اسے ریلوے اسٹیشن، مندروں، دریا اور بس اڈوں پر لے جایا گیا لیکن اس کے والدین کا کوئی نشان نہ مل سکا۔ اتنا عرصہ اپنوں سے جدائی کا دکھ تو گیتا کو ضرور ہوگا لیکن اس کی سننے اور بولنے کی اہلیت نہ ہونے کے سبب اس کا دکھ گم ہو کر رہ گیا ہے۔

Leave a reply