پہلا رزلٹ موصول ہوگیا ہے۔ اس اہم موقع پر جو الیکشن کمیشن نے فیصل واڈا کو نااہل قرار دے کر جھٹکا دیا ہے ۔ اس کے آفٹر شاکس کافی عرصے تک محسوس کیے جاتے رہیں گے ۔ اہم چیز یہ ہے کہ فیصل واوڈا جھوٹا بیان حلفی دینے پر آرٹیکل
62 ون ایف کا شکار ہوئے ہیں ۔ یعنی اب پی ٹی آئی کے جھوٹ پکڑے جانے کا وقت آگیا ہے ۔ ایسے ہی اگر کسی دن فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ بھی آگیا تو سمجھیں پی ٹی آئی کی کہانی ختم ۔۔۔۔ یہ بتا دوں کہ فیصل واڈا اگر سپریم کورٹ سے ریلیف لینے میں کامیاب نہ ہوئے تو سینٹ کی اس سیٹ پر پیپلزپارٹی کا کوئی سینیٹر بآسانی منتخب ہوسکتا ہے ۔ اسی لیے فیصل واڈا کی نااہلی کی اصل خوشی پیپلزپارٹی کے کیمپوں میں ہے ۔ پھر اب امید کرنی چاہیئے کہ اس فیصلے کے بعد اب فیصل واڈا کی
۔۔۔ اکٹر ۔۔۔ بھی ختم ہوجائی گی اور زبان بھی کنڑول میں واپس آجائے گی ۔
۔ ویسے پی ٹی آئی کی کہانی اپوزیشن نے بھی ختم کرنے کی ٹھانی ہوئی ہے ۔ کیونکہ پیپلزپارٹی اور ایم کیوایم کے بعد عنقریب مولانا بھی لاہور پہنچ رہے ہیں ۔ اور جمعہ کو پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس بھی متوقع ہے ۔ جبکہ شہباز شریف ق لیگ کی قیادت سے ملاقات کے خواہشمند ہیں جو کہ جلد ممکن ہے ۔ یوں لاہور سے تبدیلی کوتبدیل کرنے کا آغاز ہوچکا ہے ۔۔ پھر لندن میں نوازشریف نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ مسلم لیگ ن کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ مسلم لیگ ن اس ظالم حکمران سے نجات دلانے کے لیے قدم بڑھائے گی اور یہ عین وقت کی ضرورت ہے۔۔ دیکھا جائے تو عمران خان کی حکومت ایک بدترین ناکامی سے دو چار ہے ۔ اگر آپ نوٹ کریں تو گزشتہ چند ماہ سے خود کابینہ کے اندر بھی کچھ لوگوں میں یہ ہمت پیدا ہو گئی ہے کہ وہ وزیر اعظم عمران خان کی موجودگی میں اختلاف کرنے کے ساتھ اونچا بھی بول سکیں۔ ۔ ابھی دو روز قبل ہی ایمنسٹی سکیم منظور کرانے کے لئے بلایا جانے والا اجلاس اختلافات کی نذر ہو گیا اور عمران خان نے کہہ دیا کہ یہ سکیم اتفاق رائے کے بغیر منظور نہیں کی جائے گی۔ کابینہ میں ردوبدل کی خبریں آئیں تو وزیر پٹرولیم غلام سرور خان نے یہ تک کہہ دیا کہ اگر انہیں ہٹایا گیا تو ان کا پی ٹی آئی میں رہنا بے مقصد ہوگا۔ یہ ساری باتیں ایک کھچڑی کا پتہ دیتی ہیں جو پک رہی ہے اور پکتی چلی جا رہی ہے۔
۔ پھر جہانگیر ترین اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا بدلہ لینے کو تیار بیٹھے ہیں اور انھوں نے پی ٹی آئی میں اپنا ایک الگ ہی دھڑا تیار کیا ہوا ہے۔ مت بھولیں عمران خان کی وفاقی اور پنجاب حکومت کو چلتا کرنے کے لیے ایم کیو ایم اور جہانگیر ترین گروپ ہی کافی ہے۔ مگر صورتحال یہ ہوچکی ہے کہ ۔۔۔ باپ ۔۔۔ والے بھی آنکھیں دیکھا رہے ہیں ۔ ۔ کیونکہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا ۔ شاید اسی لیے آدھے سے زیادہ تحریک انصاف کے ایم این ایز اور ایم پی ایز بھی پارٹی بدلنے کے چکروں میں ہیں ۔ ۔ اسی لیے حالات کی نزاکت کو دیکھتے شیخ رشید کی پیش گوئیوں اور دھمکیوں کا سلسلہ بھی دوبارہ زور پکڑ گیا ہے۔ وہ اور فواد چوہدری روزانہ ٹی وی پر آکر یہ باور کروانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار اور منتخب حکومت کے ساتھ ہے۔ لگتا ہے آجکل کپتان نے ان دونوں کی صرف یہ ہی ڈیوٹی لگا رکھی ہے ۔ ۔ پر لوگوں کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہوگئی ہے ۔ اسی لیے تو اتحادی بھی ۔۔۔ پر ۔۔۔ پرزے ۔۔۔ نکال رہے ہیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ عمران خان اور ان کے قریبی ساتھوں کی گھبراہٹ میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ ۔ کیونکہ اب تو بات یہ شروع ہوگئی ہے کہ دیکھیں پہلے عمران خان جاتے ہیں یا عثمان بزدار ۔ اس حوالے سے سعد رفیق تو اتنے پر اعتماد ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ چند دن میں فیصلہ ہوجائے گا کہ پہلا دھاوا کہاں بولنا ہے ۔
۔ میں شہباز شریف کو بذات خود جتنا جانتا ہوں وہ مفروضوں پر بات نہیں کرتے نہ سنتے ہیں ۔پھر اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ وہ ایک منجھے ہوئے سیاست دان ہیں اور یہ ان کی سیاسی بصیرت ہے کہ انہوں نے اپوزیشن کی ایک بڑی جماعت پیپلز پارٹی کو دوبارہ سے پی ڈیم ایم اتحاد کا حصہ بنانے کی کوششوں کا آغاز کیا ہے۔ ۔ پھر اگر وہ کہہ رہے ہیں کہ حکومت کو گھر بھیجا جائے گا تو سمجھ جائیں یہ تیاری پہلے کی ہے ۔ اب صرف عوام اور میڈیا کو دیکھانے کے لیے ملاقاتیں ہورہی ہیں ۔ وہ کہتے ہیں نا کہ ماحول بنایا جا رہا ہے ۔ بس ۔۔۔ پلاننگ ان کی پہلے کی تھی ۔۔ پھر جو آصف علی زرداری تین سالوں میں دوسری بار بذاتِ خود سیاسی میدان میں اترے ہیں یہ بھی بہت اہم ہے۔ یاد رکھیں آصف علی زرداری کے بارے کہا جاتا ہے کہ انکی سیاست کو سمجھنے کے لئے پی ایچ ڈی کی ضرورت ہے۔ ۔ مت بھولیں گزشتہ سال سینٹ انتخابات کے موقع پر آصف علی زرداری کی حکمت عملی کامیابی سے دوچار ہوئی تھی ۔ جب یوسف رضا گیلانی نے عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے اُمیدوار حفیظ شیخ کو چاروں شانے چت کر ڈالا اور عمران خان کے مخالفین کے علاوہ حامیوں کو بھی یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ متحدہ اپوزیشن عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے حکومت کا تختہ الٹ سکتی ہے۔ ۔ کہتے ہیں کہ یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کی اطلاع ملنے پر عمران خان اپنی پارلیمانی پارٹیاتحادیوں اور اسٹیبلشمنٹ پر خوب گرجے برسے اور حفیظ شیخ کی ناکامی کو اپنے اوپر عدم اعتماد سے تعبیر کرتے ہوئے حکومت چھوڑنے کا عندیہ ظاہر کیا تھا۔ اس لیے زرداری کا سندھ سے نکل کر پنجاب میں ڈیرے جما دینا بہت معنی خیز ہے ۔
۔ پیپلز پارٹی اور آصف علی زرداری کو سمجھنے والوں کولگتا ہے کہ ان کو چودھری برادران کو راضی کرنے کا ٹاسک ملا ہوا ہے ۔ کیونکہ چودھری برادران کی یہ دیرینہ خواہش ہے کہ عثمان بزدار کو اگر ہٹانا ہے تو پھر چودھری پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنایا جائے مگر مسلم لیگ ن کے لئے یہ بات قابل قبول نہیں، اس لئے زرداری صاحب نے یقیناً چودھری برادران کو رام کرنے کی کوشش کی ہو گی، اب پتہ نہیں یہ کھچڑی پکی ہے یا نہیں؟ مگر آنے والے دنوں میں اس حوالے سے صورتحال واضح ہوجائے گی ۔ ویسے عثمان بزدار کو ہٹانے کی آفر تو اب عمران خان بھی کرنے لگے ہیں ۔ کہ کسی اور لانا ہے تو لے آتے ہیں بس میری کرسی بچی رہنی چاہیے ۔ مگر یاد رکھیں اپوزیشن تحریک عدم اعتماد اس وقت ہی لائے گی جب نمبر گیم پوری ہوگی اور اسکو یقین ہوگا کہ ان کو کامیابی مل جائے گی کیوں کہ اگر اپوزیشن تحریک عدم اعتماد میں ناکام رہتی ہے تو اگلے چھ ماہ تک ایوان میں وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک نہیں پیش ہو سکے گی اور اگلے انتخابات کو ویسے بھی ڈیڑھ سال رہ گیا ہے۔ تو آخری سال میں جا کر اگر حکومت کو گرایا جاتا ہے تو پھر وہ اسے سیاسی طور پر شہید کرنے کے مترادف ہو گا۔۔ تو یقینا آنے والے دنوں میں اپوزیشن کی جانب سے حکومت کو ایک مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس سارے کھیل میں شہباز شریف کا کردار سب سے اہم ہو گا کیوں کہ وہ ایوان میں اپوزیشن کے کپتان ہیں۔
۔ سیاست نام ہی تجربات کا ہے تو اپوزیشن تجربے کرتی رہتی ہے کبھی لانگ مارچ تو کبھی حکومت کیخلاف تحریک عدم اعتماد کا ماحول بنانا یہ سب کر کے ہی اپوزیشن سیاسی ماحول کو برقرار رکھ سکتی ہے جس کیلئے شہاز شریف تگ و دو کر رہے ہیں۔ اسی لیے نوازشریف نے بھی شہباز شریف کو فری ہینڈ دے دیا ہے۔ کہ وہ حکومت کیخلاف تحریک عدم اعتماد لائیں تا کہ حکومت کی مشکلات میں اضافہ کیا جا سکے جو پہلے ہی مہنگائی کی وجہ سے عوامی عدالت میں رسوا ہو چکی ہے۔ ۔ یوں اپوزیشن کی طرف سے حکومت کو ایک ڈیڑھ ماہ میں رخصت کرنے کے اعلانات محض گیدڑ بھبھکیاں نہیں ۔ ۔ کیونکہ اب کوئی شک نہیں رہ گیا کہ مارچ بہت اہم ہونے جا رہا ہے۔ آنے والے دنوں کی اصل اہمیت یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے ان میں ملک کی اہم ترین تقرری کے بارے فیصلہ کرنا ہے۔کون جانے، وزیراعظم کاامیدوار کون سا ہے اور اپوزیشن کا امیدوار کون سا۔ ۔ اس حوالے سے بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ عمران خان سے تیس نومبر کی تقرری کا والا فیصلہ کروانا ہی نہیں ہے مگر سوال یہ ہے کہ یہ فیصلہ کس نے نہیں کروانا، یہ کس کے مفادات کے خلاف جا رہا ہے اور اس پر اپوزیشن کو متحرک کون کر رہا ہے۔
۔ کیونکہ آصف زرداری ، شہباز شریف، باپ ، ایم کیو ایم اور ق لیگ کو جو اچانک ہو گیا ہے۔ وہ اشارے کے بغیر نہیں ہوتا ۔ ۔ اس لیے اب چاہے عمران خان کہیں کہ ۔ میں مزید خطرناک ہوجاوں گا ۔ یا ۔ ہمارے علاوہ کوئی اور چوائس نہیں ۔ یا
۔ اگلی باری بھی ہماری ہوگی ۔۔ اصل سچ یہ ہے کہ عمران خان کے لیے گھبرانے کا وقت شروع ہوگیا ہے ۔








