کی اس بات پر ناگواری کا اظہار فرمایا اور مذکورہ ارشاد گرامی کے ذریعہ گویا ان پر یہ واضح کیا کہ تم نے جو بات کہی ہے وہ کوئی معمولی درجہ کی نہیں ہے بلکہ اپنے نتیجہ کے اعتبار سے اس قدر ہیبت ناک ہے کہ اگر بالفرض اس کو کسی دریا میں ملا دیا جائے تو دریا اس کے سامنے ہیچ ہو جائے اور یہ چند الفاظ اس دریا کی وسعت و عظمت کے باوجود اس پر غالب آ جائیں اور اس کو متغیر کر دیں اور جب ان الفاظ کے مقابلہ میں دریا کا یہ حال ہے تو سوچو کہ تمہارے اعمال کا کیا حشر ہو سکتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ کسی کے اس درجہ کے عیب کو بقصد حقارت بیان کرنا فلاں شخص کو تاہ قد ہے غیبت ہے
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اس بات کو ہرگز پسند نہیں کرتا کہ میں کسی شخص کی نقل اتاروں اگرچہ میرے لیے ایسا اور ایسا ہی کیوں نہ ہو۔ یعنی اگر کوئی مجھے بے حساب مال و زر اور کتنا ہی زیادہ روپیہ پیسہ بھی دے تو بھی میں کسی کی نقل اتارنا گوارا نہ کروں۔مشکوۃ شریف:جلد چہارم:حدیث نمبر 792
تشریح
کسی کی نقل اتارنا قولی ہو یا فعلی ، حرام اور غیبت محرمہ میں داخل ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نے فرمایا جس شخص کے سامنے اس کے مسلمان بھائی کی غیبت کی جائے اور وہ اس مسلمان بھائی کی مدد کرے بشرطیکہ وہ مدد کرنے پر قادر ہو تو اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کی مدد کرے گا۔ اور اگر وہ مدد کرنے پر قادر ہونے کے باوجود اس کی مدد نہ کرے تو اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کا مواخذہ کرے گا۔ (شرح السنہ)
مشکوۃ شریف:جلد چہارم:حدیث نمبر 911
تشریح
مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کے سامنے بھائی کی غیبت کی جا رہی ہے اور اس کے عیوب کو بیان کر کے اس کی حثییت و عزت کو نقصان پہنچایا جا رہا ہو تو اس کو چاہیے کہ اگر وہ اس پر قادر ہو تو اپنے اس مسلمان بھائی کی ذات و حثییت کو جو نقصان پہنچا ہے اس کو ختم کرنے کی کوشش کرے کیونکہ اس طرح نہ صرف اپنے ایک مسلمان بھائی کی مدد ہوتی ہے بلکہ اپنے آپ کو دنیا و آخرت میں اللہ کی مدد نصرت کا مستحق بنایا جاتا ہے اور اگر کوئی شخص اپنی اس ذمہ داری پوری کرنے سے گریز کرے تو اس کو جان لینا چاہیے کہ قدرت کا ہاتھ اس کا گریبان پکڑے گا اور اس کو دنیا و آخرت میں مواخذہ الٰہی سے دو چار ہونا ہوگا۔
اللہ رب العالمین ہمیں غیبت جیسی تباہ کن برائی سے محفوظ رکھیں ،دین اسلام کو سمجھنے اور نبی کریم ﷺکی سنت پر عمل کرنے والا بنا دیں
محمد آصف شفیق
@mmasief
حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ دونوں بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا غیبت کرنا زنا کرنے سے زیادہ سخت برائی ہے، صحابہ ؓنے یہ سن کر عرض کیا یا رسول اللہ ﷺغیبت زنا سے زیادہ سخت برائی کس طرح سے ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا اس طرح کہ جب آدمی زنا کرتا ہے تو توبہ کرتا ہے، اور اللہ تعالیٰ اس کی توبہ کو قبول فرما لیتا ہے اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ توبہ کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کو بخش دیتا ہے لیکن غیبت کرنے والے کو اللہ تعالیٰ نہیں بخشتا جب تک کہ اس کو وہ شخص معاف نہ کر دے جس کی اس نے غیبت کی ہے یعنی زنا کاری چونکہ اللہ کی معصیت و نافرمانی ہے اس لیے وہ ان کی توبہ قبول کر لیتا ہے اور اس کو بخش دیتا ہے جبکہ غیبت کرنا حق العباد سے تعلق رکھتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ غیبت کرنے والے کو اس وقت تک نہیں بخشتا جب تک وہ شخص اس کو معاف نہ کر دے جس کی اس نے غیبت کی ہے اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا زنا کرنے والا توبہ کرتا ہے اور غیبت کرنے والے کے لیے توبہ نہیں ہے۔ (ان تینوں روایتوں کو بہیقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔)
مشکوۃ شریف:جلد چہارم:حدیث نمبر 807
تشریح
اور غیبت کرنے والے کے لیے توبہ نہیں ہے، غالباً اس اعتبار سے فرمایا گیا ہے کہ جو شخص زنا میں مبتلا ہو جاتا ہے اس کے دل پر اللہ کا خوف طاری ہو جاتا ہے اور اس تصور سے لرزنے لگتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مواخذہ کر لیا تو نجات کا راستہ نہیں ملے گا اس لے وہ اپنے اس فعل شنیع پر نادم و شرمسار ہو کر توبہ کرتا ہے جب کہ غیبت اگرچہ اللہ کے نزدیک بڑے گناہ کی چیز ہے کہ مگر غیبت کرنے والا اس کو ایک ہلکی چیز سمجھتا ہے کیونکہ جب کوئی برائی عام ہو جاتی ہے تو اس کی قباحت دل سے نکل جاتی ہے اور لوگ اس میں مبتلا ہو جانے کی برائی محسوس نہیں کرتے یا یہ بات بھی بعید از مکان نہیں ہو سکتی ہے کہ غیبت کرنے والا غیبت کو سرے سے کوئی برا فعل ہی نہ سمجھے بلکہ اس کو جائز و حلال جانے اور اس طرح وہ کفر کے بھنور میں پھنس جائے، اور یا اس جملہ کے یہ معنی ہیں کہ غیبت کرنے والا توبہ کرتا ہے تو اس کی توبہ بذات خود کارگر نہیں ہوتی بلکہ اس توبہ کا صحیح و مقبول ہونا اس شخص کی رضا مندی اور اس کی طرف سے معاف کر دیئے جانے پر موقوف ہوتا ہے جس کی اس نے غیبت کی ہے چنانچہ اوپر کی حدیث سے یہی واضح ہوتا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں (ایک دن مجھے کیا سوجھی کہ) میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہہ بیٹھی کہ صفیہ کے تئیں بس آپ کے لیے اتنا کافی ہے کہ وہ ایسی ایسی ہیں اس بات سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی مراد حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے قد کی کوتاہی(چھوٹے قد کا ) کا ذکر کرنا تھا رسول اللہﷺ نے میری یہ بات سن کر ناگواری کے ساتھ فرمایا تم نے اپنی زبان سے ایک ایسی بات نکالی ہے کہ اگر اس کو دریا میں ملایا جائے تو بلاشبہ یہ بات دریا پر غالب آ جائے (احمد، ترمذی، ابوداؤد) مشکوۃ شریف:جلد چہارم:حدیث نمبر 788
تشریح
حضرت صفیہ بن حیی رضی اللہ عنہا بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک زوجہ مطہرہ تھیں ان کا قد چھوٹا تھا چنانچہ ایک دن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے چاہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے اس عیب کا ذکر کریں اور اس طرح انہوں نے مذکورہ الفاظ اپنی زبان سے ادا کیے ظاہر ہے کہ یہ غیبت تھی جس میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا مبتلا ہوئیں اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انکی اس بات پر ناگواری کا اظہار فرمایا اور مذکورہ ارشاد گرامی کے ذریعہ گویا ان پر یہ واضح کیا کہ تم نے جو بات کہی ہے وہ کوئی معمولی درجہ کی نہیں ہے بلکہ اپنے نتیجہ کے اعتبار سے اس قدر ہیبت ناک ہے کہ اگر بالفرض اس کو کسی دریا میں ملا دیا جائے تو دریا اس کے سامنے ہیچ ہو جائے اور یہ چند الفاظ اس دریا کی وسعت و عظمت کے باوجود اس پر غالب آ جائیں اور اس کو متغیر کر دیں اور جب ان الفاظ کے مقابلہ میں دریا کا یہ حال ہے تو سوچو کہ تمہارے اعمال کا کیا حشر ہو سکتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ کسی کے اس درجہ کے عیب کو بقصد حقارت بیان کرنا فلاں شخص کو تاہ قد ہے غیبت ہے
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اس بات کو ہرگز پسند نہیں کرتا کہ میں کسی شخص کی نقل اتاروں اگرچہ میرے لیے ایسا اور ایسا ہی کیوں نہ ہو۔ یعنی اگر کوئی مجھے بے حساب مال و زر اور کتنا ہی زیادہ روپیہ پیسہ بھی دے تو بھی میں کسی کی نقل اتارنا گوارا نہ کروں۔مشکوۃ شریف:جلد چہارم:حدیث نمبر 792
تشریح
کسی کی نقل اتارنا قولی ہو یا فعلی ، حرام اور غیبت محرمہ میں داخل ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نے فرمایا جس شخص کے سامنے اس کے مسلمان بھائی کی غیبت کی جائے اور وہ اس مسلمان بھائی کی مدد کرے بشرطیکہ وہ مدد کرنے پر قادر ہو تو اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کی مدد کرے گا۔ اور اگر وہ مدد کرنے پر قادر ہونے کے باوجود اس کی مدد نہ کرے تو اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کا مواخذہ کرے گا۔ (شرح السنہ)
مشکوۃ شریف:جلد چہارم:حدیث نمبر 911
تشریح
مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کے سامنے بھائی کی غیبت کی جا رہی ہے اور اس کے عیوب کو بیان کر کے اس کی حثییت و عزت کو نقصان پہنچایا جا رہا ہو تو اس کو چاہیے کہ اگر وہ اس پر قادر ہو تو اپنے اس مسلمان بھائی کی ذات و حثییت کو جو نقصان پہنچا ہے اس کو ختم کرنے کی کوشش کرے کیونکہ اس طرح نہ صرف اپنے ایک مسلمان بھائی کی مدد ہوتی ہے بلکہ اپنے آپ کو دنیا و آخرت میں اللہ کی مدد نصرت کا مستحق بنایا جاتا ہے اور اگر کوئی شخص اپنی اس ذمہ داری پوری کرنے سے گریز کرے تو اس کو جان لینا چاہیے کہ قدرت کا ہاتھ اس کا گریبان پکڑے گا اور اس کو دنیا و آخرت میں مواخذہ الٰہی سے دو چار ہونا ہوگا۔
اللہ رب العالمین ہمیں غیبت جیسی تباہ کن برائی سے محفوظ رکھیں ،دین اسلام کو سمجھنے اور نبی کریم ﷺکی سنت پر عمل کرنے والا بنا دیں
@mmasief