کراچی۔(اے پی پی) انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) کراچی نے ممتاز شخصیات کے لیکچرز کی سیریز کے سلسلے میں پاکستان کی معیشت، معاشی چیلنجز اور امکانات کے موضوع پر آئی بی اے کیمپس میں گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان ڈاکٹر رضا باقر کے لیکچر کا اہتمام کیا۔ منگل کو مرکزی بینک سے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق میزبانی کے فرائض ایگزیکٹو ڈائریکٹر آئی بی اے ڈاکٹر فرخ اقبال نے انجام دئیے جنہوں نے حاضرین سے ڈاکٹر باقر کا تعارف کرایا۔ حاضرین میں تعلیمی اداروں، کارپوریٹ سیکٹر، آئی بی اے فیکلٹی اور طلبہ شامل تھے۔ ڈاکٹر باقر نے اپنے لیکچر کو تین حصوں میں تقسیم کیا جس میں معیشت کو درپیش موجودہ معاشی چیلنجز کے اسباب، ان چیلنجز سے نمٹنے کیلئے معاشی ٹیم کے اقدامات اور اب تک کے نتائج اور معیشت کا منظرنامہ شامل ہیں۔ انہوں نے موجودہ معاشی چیلنجز کے دو بنیادی اسباب بیان کئے، پہلا یہ کہ 2015-2018 کے دوران بڑھتے ہوئے جاری کھاتے کا خسارہ جو زائد القدر اور نسبتاً معینہ ایکسچینج ریٹ کے تناظر میں ملک کے ذخائر میں نمایاں کمی کا باعث بنا، دوسرا اہم سبب بڑھتا ہوا مالیاتی خسارہ اور سرکاری قرضہ تھا جس نے ملک کو قرضے کے لائق ہونے کی اہلیت کو مشکوک بنادیا تھا۔ ڈاکٹر باقر نے کہا کہ اقتصادی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے ان شعبوں میں تین قسم کے اقدامات کئے گئے ہیں جن میں بیرونی شعبہ، مالیاتی شعبہ اور زرعی شعبہ شامل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سب سے پہلے اقدام سے 2017 کے آخر سے ایکسچینج ریٹ میں متعدد بار ردوبدل کرنے سے شرح مبادلہ کی زائد قدرپیمائی کو کم کرنے میں مدد ملی۔ اس کا اختتام مئی 2019 میں ایکسچینج ریٹ کے نظام میں تبدیلی سے ہوا جس کی جگہ مارکیٹ پر مبنی نظام نے لے لی جس میں اقتصادی حکام کو کرنسی کے قدر کا تعین نہیں کرنا پڑے گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ مارکیٹ پر مبنی نظام کے آزادانہ پہلو پر مشتمل نہیں تھا اور اس میں اسٹیٹ بینک کو خراب حالات کی درستگی کے لئے مارکیٹ میں مداخلت کی اجازت تھی۔ انہوں نے بتایا کہ ان اقدامات کے نتیجے میں جاری کھاتے میں نمایاں بہتری آئی اور اس کا 2 ارب ڈالر ماہانہ تک کا تاریخی بلند خسارہ کم ہو کر نصف رہ گیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جاری کھاتے کے خسارے میں بہتری لانے میں درآمدات میں کمی اور برآمدات کے حجم میں بہتری نے کردار ادا کیا، اگرچہ بین الاقوامی اکائی قیمتوں میں کمی کے باعث برآمدی قدروں میں زیادہ نمو نہیں ہو سکی۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے معیشت میں برآمدات کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ روزگار اور پیداوار کے لحاظ سے جو بات اہمیت رکھتی ہے وہ برآمدات کا حجم ہے۔ ڈاکٹر باقر نے مالیاتی خسارے سے متعلق چیلنجز سے نمٹنے کے لئے حکومت کے اقدامات کا بھی مختصراً ذکر کیا۔ آخر میں ڈاکٹر باقر نے کہا کہ ماضی کے بیرونی اور مالیاتی عدم توازن سے نمٹنے کی ضرورت کا مطلب یہ تھا کہ مہنگائی جزوی طور پر ایکسچینج ریٹ، ٹیکسز اور یوٹیلٹی نرخوں میں اضافے کے باعث بڑھ گئی۔ اس کی بنا پر مانیٹری پالیسی کو سخت کرنا پڑا جس سے مہنگائی کم کرنے میں مدد ملے گی۔ ڈاکٹر باقر نے منظرنامے پر اور خاص کر اس بات پر کہ یہ پروگرام آئی ایم ایف کے سابقہ پروگراموں سے کس طرح مختلف ہوگا تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کی سب سے اہم وجہ زرِ مبادلہ ذخائر کا کم ہوتے جانا اور ان کی پست سطح تھی۔ اگر پاکستان ایسے ادارے بنانے کے قابل ہو جو ان ذخائر میں اضافہ کرتے رہیں اور سرمائے کے اخراج کے زمانے میں یہ ادارے زرمبادلہ کو محفوظ رکھیں تو پاکستان اقتصادی دھچکوں سے خود کو محفوظ بنانے کے قابل ہو جائے گا اور اسے بین الاقوامی مالی اداروں سے مدد مانگنا نہیں پڑے گی۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ پروگرام میں دو ادارہ جاتی اصلاحات اس حوالے سے مدد کریں گی، مارکیٹ کی بنیاد پر ایکسچینج ریٹ کا نظام اور اسٹیٹ بینک سے حکومت کی صفر قرض گیری جس سے مالیاتی نظم و ضبط لانے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے اپنی گفتگو کے اختتام پر زور دے کر کہا کہ طویل مدتی نقطہ نظر سے پاکستان کے لئے اہم چیلنج یہ ہے کہ وہ اپنی بچت اور سرمایہ کاری کی شرح میں اضافہ کرے۔ لیکچر کے بعد ڈاکٹر اقبال نے ڈاکٹر باقر سے پاکستان کے موجودہ معاشی مسائل اور مشکلات اور ان پر قابو پانے کے لئے حل پر اظہار خیال کے لئے گفتگو کی۔ اس کے بعد ڈاکٹر باقر اور حاضرین کے درمیان سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا۔ سیشن کا اختتام ڈاکٹر اقبال کی جانب سے شکریے کے اظہار پر ہوا۔ ڈاکٹر باقر کو ایک یادگار بھی پیش کی گئی۔ یاد رہے کہ ڈاکٹر رضا باقر اس سے قبل عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور عالمی بینک میں 20 سال کام کرچکے ہیں۔ وہ ہارورڈ یونیورسٹی سے معاشیات میں اے بی)میگنا کم لاڈ(اور یورنیورسٹی آف کیلیفورنیا بارکلے سے معاشیات میں پی ایچ ڈی کی اسناد رکھتے ہیں۔ ان کی تحقیق معاشی پیشے کے کئی موقر جرائد بشمول جرنل آف پولیٹیکل اکانومی اور کوارٹرلی جرنل آف اکنامکس میں شائع ہوچکی ہے۔

مانیٹری پالیسی کو کیوں سخت کرنا پڑا ،گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر نے بتا دیا
Shares: