حکومت نے قومی اسمبلی سے ایک اور بل منظور کروا لیا.

0
39
parliment

حکومت نے قومی اسمبلی سے ایک اور بل منظور کروا لیا.

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت ہوا، اجلاس میں زینب الرٹ بل پیش کرنے کی تحریک منظور کی گئی، زینب الرٹ بل شیریں مزاری نے پیش کیا بعد ازاں قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر زینب الرٹ بل منظور کر لیا.

قومی اسمبلی میں وراثتی سرٹیفکیٹ بل 2019کی متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا،قومی اسمبلی نے لیگل ایڈ معاونت بل 2019 کی بھی منظوری دےدی،قومی اسمبلی میں بلز پارلیمانی سیکریٹری ملیکہ بخاری نے پیش کیے،

قومی اسمبلی میں نیب اوربے نامی کاروباری معاملات سے متعلق بلز پیش نہیں کئے گئے،نیب اوربے نامی کاروباری معاملات سے متعلق بلز قائمہ کمیٹیوں کو بھجوادیئےگئے،قومی اسمبلی میں بے نامی لین دین اور قومی احتساب آرڈیننس بھی واپس لے لیا گیا

بلاول بھٹو کی سربراہی میں قومی اسمبلی کی کمیٹی برائے انسانی حقوق نے زینب الرٹ بل کو کافی عرصے تک طول دیا ,قائمہ کمیٹی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے 9 اکتوبر 2019 کو ’زینب الرٹ بل‘ کی منظوری دے دی تھی۔ کمیٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ یہ بل صرف اسلام آباد میں لاگو ہوگا۔ اسے ملک بھر میں نافذ کرنے کیلئے چاروں صوبائی اسمبلیوں کو بھی ’زینب الرٹ بل‘ پاس کرنا چاہیے تاکہ بچوں کو محفوظ بنایا جا سکے۔

زینب الرٹ جوابی ردعمل اور بازیابی بل 2019ء پر قائمہ کمیٹی انسانی حقوق کی رپورٹ شازیہ مری نے پیش کی۔ اسلام آباد میں معذور افراد کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے بھی قائمہ کمیٹی انسانی حقوق کی رپورٹ پیش کر دی گئی ہے۔ وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ زینب الرٹ بل کو بغیر کسی تاخیر کے منظور کیا جائے۔ جمعہ کو بل منظور کر کے سینیٹ کو بھجوا دیا جائے۔ پہلے ہی بہت تاخیرہو چکی ہے۔ شازیہ مری نے کہا کہ ہم بھی چاہتے ہیں کہ فوری قانون سازی کا مرحلہ مکمل ہو جائے۔

زینب الرٹ بل قصور کی ننھی بچی زینب کے ساتھ زیادتی اور قتل کے بعد وقافی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے پیش کیا تھا۔ بل کا مقصد 18 سال سے کم عمر لاپتہ اور اغوا شدہ بچوں کے تحفظ کے لیے قوانین واضع کرنا ہے۔ بل کے مطابق اسلام آباد میں ’چلڈرن پروٹیکشن ایکٹ 2018‘ کے تحت ادارہ قائم کیا جائے گا جبکہ لاپتہ بچوں کی فوری بازیابی کیلئے ’زارا‘ یعنی زینب الرٹ رسپانس اینڈ ریکوری ایجنسی کا قیام بھی بل کا حصہ ہے۔

زیب الرٹ بل کے تحت بچوں سے متعلق معلومات کے لیے پی ٹی اے، سوشل میڈیا اور دیگر اداروں کے تعاون سے ہیلپ لائن اور ایس ایم ایس سروس بھی شروع کی جائے گی۔ اس کے ساتھ ڈائریکٹر جنرل قومی کمیشن برائے حقوق طفل متعلقہ ڈویژن کی مشاورت سے سپرنٹنڈنٹ پولیس کی سربراہی میں خصوصی ٹیمیں بھی تشکیل دے گا۔

اس بل کے تحت گمشدہ بچوں کے حوالے سے ڈیٹا فراہم کرنے میں تاخیر پر سرکاری افسروں کو ایک سال تک قید کی سزا بھی ہو سکے گی۔

احسن اقبال کو نیب نے کیوں گرفتار کیا؟ ایسی وجہ سامنے آئی کہ ن لیگ حیران رہ گئی

احسن اقبال کی گرفتاری، مریم اورنگزیب چیئرمین نیب پر برس پڑیں کہا جو "کرنا” ہے کر لو

نیب نے مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال کو گرفتار کر لیا، اس حوالہ سے نیب نے اعلامیہ جاری کر دیا ہے،

نواز شریف کے قریبی دوست میاں منشا کی کمپنی کو نوازنے پر نیب کی تحقیقات کا آغاز

نواز شریف سے جیل میں نیب نے کتنے گھنٹے تحقیقات کی؟

تحریک انصاف کا یوٹرن، نواز شریف کے قریبی ساتھی جو نیب ریڈار پر ہے بڑا عہدہ دے دیا

وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت بچوں پر تشدد کی روک تھام اور ان کے حقوق کے تحفظ کیلئے ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے۔ بین الاقوامی انسانی اور بچوں کے حقوق کے دن کی مناسبت سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے کابینہ کے پہلے اجلاس میں بچوں پر تشدد کا معاملہ اٹھایا اور بچوں کے حقوق کے تحفظ اور ان کو صحت و تعلیم کی فراہمی کے عزم کا اظہار کیا۔

شیریں مزاری کا مزید کہنا تھا کہ وزیراعظم آفس میں خصوصی سیل قائم کیا گیا ہے جس میں بچوں کے اغواء سے متعلق شکایت درج کرائی جا سکتی ہے،بچوں پر تشدد کی روک تھام اور حقوق کے تحفظ کے قوانین موجود ہیں لیکن ان پر عملدرآمد کی ضرورت ہے، معاشرہ میں بچوں کے حقوق سے متعلق آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے، اس حوالہ سے ہمیں معاشرہ کی سوچ تبدیل کرنا ضروری ہے، بچے ہمارا مستقبل اور ملک کا اثاثہ ہیں۔

لترپروگرام ہرصورت ختم ہونا چاہیے،رحمان ملک کی آئی جی پنجاب سے درخواست

بچوں کے اغوا اور زیادتی کے واقعات کو ختم کرنا ہوگا، قائمہ کمیٹی برائے داخلہ

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی سیکرٹری برائے انسانی حقوق رابعہ جویری آغا نے وزارت کی جانب سے بچوں پر تشدد کی روک تھام اور ان کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کے حوالہ سے کئے گئے اقدامات سے آگاہ کیا۔

Leave a reply