گمان تحریر: سیف اللہ عمران

0
47

گمان ۔۔۔۔تحریر:: عمران علی

یقین کچے گھڑے کو پکا رنگ دیتا ہے اور گمان محلات میں رہ کر لرزتا ہے، خوفزدہ ہوتا ہے زرا سہمہ رہتا ہے

آپ کے گمان پر آپ کی زندگی کا تسلسل ہے

مطلب کہ آپ جس چیز کا گمان زیادہ کر لیں کہ یہ ایسی ہے. تو آگے چل کر آپ کو وہی کچھ ملے گا جیسا آپ نے گمان کیا

اللہ پاک فرماتے ہیں اے میرے بندے تومجھ سے جیسا گمان کرے گا میں تجھ سے تیرےگمان کے مطابق معاملہ کرتا رہوں گا پختہ یقین منزل کو قدموں کی دھول بنا دیتا ہے اللہ پر یقین مثبت سوچ اور مضبوط ارادہ جس کے کردار اور شخصیت ہوں وہ ماحول میں نہیں ماحول خود ان میں ڈھلتا ہے کیوں کہ انسان کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ اپنی غلطی نہیں مانتا

عبرت اور مقدر میں بڑا فرق ہے
کچھ لوگ عبرت حاصل کرکے مقدر سنوار لیتے ہیں.
اور کچھ لوگ مقدر پر چھوڑ کر عبرت بن جاتے ہیں.

تمھیں پتہ ہے تمہارا مسئلہ کیا ہے ۔۔۔؟
تم نے اپنے فیصلے اللہ پر چھوڑ تو دیے ہیں مگر دل سے نہیں چھوڑے تم اب بھی چاہتے ہو کہ کاش فیصلہ وہی ہو جو تمہاری خواہش ہے

یہ کیسا اعتبار ہے بھلا ۔۔۔؟
سمندر کے بیچ کھڑے شخص کو اس بات سے کیا غرض کشتی آر لگے یہ پار اسے تو بس یہ یقین ہونا چاہیے٬
میں ڈوب بھی گیا تو یہ میرے لیے آر پار جانے سے بہتر ہوگا
یہی تو اعتبار امتحان ہے
اللہ جتنی محبت اپنے بندے سے کرتا ہے آپ کے گمان سے بھی آگے ہے ہم صرف دیکھتے ہیں جو ظاہری خوبصورتی ہے جب کے اللہ یہ بھی جانتا ہے آپ کے لیے کیاخوب صورت ہے
یقین کرو جس دن اس اعتبار پے فیصلہ اللہ پے چھوڑو گے کہ جو بھی ہوا میرے لیے وہی بہترین ہوگا اس دن نہ صرف آپ بےچینی سے نکل آئیں گے بلکہ فیصلہ آپ کے یقین سے ذیادہ بہترین ہوگا کیوں کہ اللہ ساری دنیا اور لوگوں کے دلوں سمیت ان کی سوچ کے رخ تک بدلنے پے قادر ہے۔

Leave a reply