عام طور پر کسی انسان یا معاشرے کی بنیادی ضروریات زندگی کو دیکھتے ہوئے اس کی خوشحالی اور غربت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔آئے روز مہنگائی اور غذائی اشیاء کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی غربت کی ایک اہم اور بڑی وجہ ہے۔حال ہی میں سال 2020ء میں کرونا وبا کی وجہ سے بے روزگاری اور غربت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔اور موجودہ سال میں بھی حالات کچھ زیادہ بہتر نہیں ہیں ۔
موجودہ دور میں پاکستان کئی مسائل میں گھرا ہوا ہے، اور اس وقت ملک کا ایک بڑا مسئلہ غربت ہے، اور غربت کی بنیادی وجہ بے روزگاری ہے۔جس سے دیگر کئی مسائل جیسا کہ، جہالت، بھوک و افلاس معاشی و معاشرتی پسماندگی اور چوری و ڈکیتی جیسے کئ گھناؤنے جرائم جنم لے رہے ہیں۔

در حقیقت بے روزگاری ایک عالمی مسئلہ بن گیا ہے، کئ ترقی یافتہ ممالک جیسا کہ امریکہ، برطانیہ اور فرانس جہاں اکثریت آبادی امیر و برسرِ روزگار ہے، وہ بھی غربت کی زد میں آگئے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں بےروزگاری کو ایک سماجی و معاشرتی برائی کے طور پر لیا جاتا ہے، جس سے فاقہ کشی اورمختلف وباؤں کے پھیلنے جیسے خطرناک حالات جنم لیتے ہیں۔اور انہیں حالات کی زد میں آکر لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
پاکستان میں تین طرح کے لوگ آباد ہیں، پہلے نمبر پر امیر طبقہ ہے، جس کے پاس ہر قسم کی آرام و آسائش کی سہولتیں موجود ہیں، اور وہ بہترین زندگی گزار رہے ہیں، دوسرے نمبر پر درمیانی قسم کے لوگ ہیں،جو غربت کی چکی میں پسنے والوں سے تھوڑا اوپر ہیں ، اور تیسرے نمبر پر اس ملک کا غریب ترین طبقہ ہے جو کہ محض دو وقت کی روٹی کیلئے بھی ترستا ہے۔
میرے ملک پاکستان میں امیر آئے دن امیر ترین اور غریب، غریب تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔جو کہ اس ملک میں غیر منصفانہ تقسیم کا سبب ہے۔
ایک اندازے کے مطابق دنیا کی ٪85 دولت صرف ٪10 فیصد افراد کے پاس ہے جبکہ دولت کا صرف ٪15 فیصد باقی کی ٪90 فیصد آبادی کے پاس ہے۔ یہ اعداد و شمار دنیا بھر میں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کو واضح کرتے ہیں۔

غربت کی بھی بہت سی وجوہات ہیں۔

جن میں سے ایک بڑی وجہ بے روزگاری، روزگار کے مواقعوں کی کمی ہے، اور دوسری بڑی وجہ جہالت، تعلیم کا فقدان ہے، اور جو افراد تعلیم یافتہ ہیں، تو ان کو ملازمت کے حصول کیلئے رشوت اور کسی اچھی سفارش کا سہارا چاہیئے۔ اور اس کے بغیر تو ملازمت کا حصول ناممکن ہے، اس طرح کے نظام سے ہماری نوجوان نسل ذہنی تناؤ کا شکار ہو جاتی ہے۔آئے روز خبروں میں یہی سننے کو ملتا ہے کہ فلاں جگہ، فلاں شہر میں غربت سے تنگ آکر نوجوان نے خود کشی کر لی۔ باپ نے بچوں سمیت خود کو مار ڈالا، وجہ دو وقت کی روٹی پوری نہ کر سکا ۔
آخر کب تک ہمارا معاشرہ اسی نظام کے تحت چلتا رہے گا؟
معاشرے کے اس طرح کے نظام سے لوگوں میں مایوسی اور بے اطمینانی پیدا ہوتی ہے اور یہی مایوسی اور بے اطمینانی نوجوان نسل میں حکومت کے خلاف انتشار کے جذبات ابھارتی ہے، اور یہی انتشار بغاوت کا سبب بنتا ہے، اور پھر بغاوت انقلاب کی شکل اختیار کر لیتی ہے،
ہم آخر کب سمجھیں گے؟ کہ ہماری نوجوان نسل ہمارا سرمایہ ہے۔
مگر میرے ملک کے حکمران خواب غفلت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔موجودہ حکومت کے حکمرانوں کو یہ بات سمجھنی ہو گی کہ اس ملک سے غریب کو نہیں، بلکہ غربت کو مٹانا ہے، غیر منصفانہ تقسیم کا خاتمہ کرنا ہے۔تا کہ معاشی اور سیاسی مسائل پیدا نہ ہوں۔
اور مزید کڑوا سچ یہ ہے کہ حکمران عوام کو صرف ووٹ حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، اور برسر اقتدار آتے ہی انہیں عوام کا خیال نہیں رہتا۔

غربت دیمک کی طرح انسانی معاشرے کی خوشیاں اور آرام و سکون کھا جاتی ہے۔غربت پر قابو پائے بغیر کوئی بھی معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا۔ اور ترقی یافتہ معاشرے کے بغیر کوئی ملک ترقی یافتہ ملک نہیں بن سکتا۔
چائلڈ لیبر غربت زدہ معاشرے کی ذندہ مثال ہے، جن بچوں کو اسکول میں ہونا چاہئے، وہ فٹ پاتھ پر چیزیں بیچتے، گھروں اور ہوٹلوں میں کام کرتے نظر آتے ہیں۔ہمارے معاشرے نے ان معصوموں کا بچپن، ان کے جینے کا حق اور یہاں تک کے ان کے چہروں سے مسکراہٹ تک چھین لی ہے۔
کل کو یہی بچےحقوق کی حق تلفی کی وجہ غلط راہ پر چلیں گے۔ ہمارے ملک میں ہر سال لاکھوں بچے جنسی و جسمانی تشدد کا شکار ہوتے ہیں، تقریباً 33 لاکھ بچے چائلڈ لیبر فورس کا حصہ ہیں ۔اس کے باوجود ہم چائلڈ لیبر کے خلاف آواز بلند نہیں کر پاتے، کیوں کہ ہمارے خیال میں اس کے پیچھے ہمارا ہی فائدہ ہے۔
یاں ان کا فائدہ ہے، جو غربت کے سبب دو وقت کی روٹی کے عوض ان معصوموں کو معاشرے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔
ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں غربت کی شرح 4.4فیصد سے بڑھ کر 5.4 فیصد ہوچکی ہے۔
آبادی میں آئے دن بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے، وسائل ختم ہو رہے ہیں، جس کی بدولت غربت بھی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ زراعت میں بھی کچھ خاص حالات ٹھیک نہیں ہیں۔سالانہ بارشوں کی وجہ سے فصلوں کا ایک بڑا حصہ تباہ ہو جاتا ہیں۔
ہمارے ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ تعلیم،اور صحت جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔
غربت کے خاتمے کے لیے ہمیں تین بنیادی میدانوں یعنی آبادی میں اضافے، تعلیم اور ٹیکس وصولی کے شفاف نظام پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔اہل افراد کو ان کی اہلیت کی بناء پر ملازمتیں دی جائیں۔
پاکستان ہر سال غربت کے خاتمے کیلئے اقوام متحدہ اور ورلڈ بینک، سے کچھ سالانہ امداد حاصل کرتا ہے،
جبکہ ملک کے اندر بھی بینظیر انکم سپورٹ، احساس پروگرام، EOBI، اخوت اور پاکستان بیت المال جیسے کئ پروگرام غریب لوگوں کی مدد کے لیے سرگرم ہیں،لیکن اس کے باوجود لاکھوں مستحق افراد غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے اس امداد کو لے نہیں پا رہے۔
پاکستان کو غربت کے خاتمے کے لیے مذید سیاسی اصلاحات کی ضرورت ہے۔غرباء کو ٹیکس میں چھوٹ دی جائے، تعلیمی نظام بہتر کیا جائے اور آبادی میں اضافہ کو روکا جائے، تا کہ آئندہ سالوں میں ملک کسی بھی قسم کے بحران کا شکار نہ ہو۔

‎@_aqsasiddique

Shares: