گڑیا ٹوٹ گئی تحریر: راحیلہ عقیل

امی امی امی مجھے بچا لو انکل پلیز مجھے چھوڑ دیں مجھے گھر جانا ہے امی کہا ہو آپ پلیز مجھے بچا لو ابو بھائی مجھے انکل سے بچاؤ ۔۔۔۔۔۔۔ انکل مجھے درد ہو رہا میرے ہاتھ کھول دو مجھے گھر جانا ہے مجھے امی کے پاس جانا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور پھر ایک سناٹا کسی نے وہ درد ناک چیخیں نہیں سنی کسی نے اس معصوم کی فریاد نہیں سنی کسی کو اسکے آنسو دکھائی نا دیے ۔۔۔۔۔ 6سالہ گڑیا گھر کے باہر سے اغواہ ہوجاتی ہے وہ گھر کے باہر کھیل رہی تھی یا چیز لینے دکان پر گئی اسکی ماں کو اندازہ بھی نہیں تھا کے وہ دوبارہ اپنی بچی اپنے جگر کے ٹکڑے جسکو نو ماہ پیٹ میں رکھا درد سہہ کر پیدا کیا راتیں جاگ کر 6سال کا کیا جسکو بخار ہوجاے تو ساری ساری رات ماں گودھ میں لٹائے جاگتی رہتی اب وہ گڑیا کبھی لوٹ کر گھر نہیں آئے گی کبھی ماں سے چیز کے پیسے نہیں مانگے گی۔۔۔۔۔ کبھی ماں سے کھلونوں کی فرمائش نہیں کرے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔ کبھی بہانا کرکے اسکول کی چھٹی نہیں کرے گی نا ضد کرکے پراٹھا بنوائے گی۔۔۔۔۔۔

لے گیا کوئی درندہ منہ دبا کر ٹافی، کھلونے ،گھمانے کا بہانا بنا کر مسل دیا معصوم کلی کو کھلنے سے پہلے ہی اپنی گندی ہوس کا نشانہ بنا ڈالا جس جسم پر ماں بیماری میں انجیکشن لگواتے وقت خود اولاد سے زیادہ روتی اس جسم کو نوچ ڈالا کاش کے کوئی ماں کے درد کو الفاظوں میں لکھ سکتا یہ وہ دکھ درد ہے جسکو کوئی دوسرا محسوس نہیں کرسکتا جن ہاتھوں میں دو دن کی گڑیا کو گھر لاتے وقت ماں بار بار نظر اتار رہی تھی آج وہی گڑیا کچرے خانے پر بنا کپڑوں کے پڑی اس دنیا کو چھوڑ کر جاچکی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ کلیجہ پھٹ جاے یہ وہ صدمہ ہے والدین کے لیے آخر کب تک کب تک؟ ہم معصوم بچیوں کے ساتھ یہ درندگی دیکھتے رہینگے کب ہماری حکومت کو احساس ہوگا کے اب بس ختم کرنا ہے یہ سب لٹکائیں ان درندوں کو سرعام سالوں کیس چلتے آخر میں ضمانت مل جاتی عوام بھول بھال جاتی اور پھر کوئی گڑیا اس ظلم کا شکار ہوجاتی ۔۔۔۔

اصل میں ہم خود بے حس ہیں ہم خود مطلب پرست ہیں اگر ہم اپنی من پسند جماعتوں کو سپورٹ کرنے کے بجائے عوام مسائل پر مل کر آواز اٹھائیں تو بہت کچھ بدل سکتا ہے لیکن ہمیں تو خود سیاست کرنی ہے ہم نے تو خود لاشوں کے ڈھیر پر کھڑے ہونے والے سیاستدانون کو اپنا رہنما ثابت کرنے کے لیے ہزار جھوٹ بولنے ہیں ۔۔۔۔۔۔
کاش کے کوئی ایک اٹھے کوئی ایک ایسا آئے جو بچوں کے ساتھ ہونے والی ذیادتی کے خلاف سیدھا سنسار کرنے کا حکم دے
تب ہی یہ سلسلہ رک سکتا ہے ورنہ آج گڑیا کل کوئی اور ۔۔۔۔
ڈر برابر بنا ہوا ہے ہر اس ماں پر جس کے گھر معصوم بچیاں ہیں اس ڈر کو ختم کون کرے گا ؟
یہ وہ سوال ہے جسکا جواب آج تک نا ملا آگے بھی امید نظر نہیں آتی ۔۔۔۔۔۔۔

Comments are closed.