معروف اینکر اقرار الحسن نے کہا ہے کہ ماضی میں شوکت ترین اور حفیظ شیخ کو وزیر خزانہ لگانے والے اب اسحاق ڈار کی بطور وزیر خزانہ تقرری پر کس منہ سے اعتراض کررہے ہیں؟


تاہم اس ٹوئیٹ کے بعد سوشل میڈیا پر بحث چھڑ گئی ہے جس پر اقرار الحسن نے مزید کہا کہ: پی ٹی آئی والے اسحاق ڈار اور شوکت ترین میں مماثلت پِر اعتراض کر رہے ہیں لہزا ان کے لیئے عرض ہے کہ آپ لوگ زرداری اور نواز شریف دونوں پر منی لانڈرنگ کا الزام لگاتے ہیں حالانکہ ایسا وزیرِ خزانہ کی معاونت کے بغیر ممکن نہیں اور تحریک انصاف والوں کی یادہانی کیلئے یاد کراتا چلو شوکت ترین زرداری دور حکومت میں وزیر خزانہ تھے جنہیں عمران خن نے اپنے دور حکومت وزیر خزانہ لگایا.

ایک رپورٹ کے مطابق شوکت ترین نے 1975 میں سٹی بینک میں ایک ٹرینی کے طور ملازمت اختیار کی اور سٹی بینک تھائی لینڈ کے صدر کے منصب پر فائز رہے، سٹی بینک کے ساتھ 22 سال منسلک رہنے کے بعد 1997 میں میاں نواز شریف کی حکومت کے کہنے پر وہ پاکستان آئے اور انھوں نے حبیب بینک کی کامیاب ری اسٹریکچرنگ کی جس کے نتیجے میں یہ بینک 230 ملین ڈالرز کے خسارے سے 30 ملین ڈالرز منافع میں آگیا۔ 2000 میں وہ حبیب بینک سے بطور صدر فارغ ہوئے اور یونین بینک میں ملازمت اختیار کی جس کے شیئرز سٹینڈرڈ چارٹرڈ کے حوالے کیے گئے۔

برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق: 2008 میں شوکت ترین کراچی سٹاک ایکسچینج کے صدر رہے، جہاں سے وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں پہلے یوسف رضا گیلانی کے مشیر خزانہ اور بعد میں سندھ سے ٹیکنو کریٹ کی نشست پر سینیٹر منتخب ہوئے اور انہیں وزیر خزانہ کا منصب دیا گیا تھا. ان دنوں آئی ایم ایف کے قرضے کے ساتھ این ایف سی ایوارڈ کی تقسیم بھی مجوزہ تھی جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ان کی کوشش ہوگی کہ این ایف سی ایوارڈ کی تقسیم کے معاملے میں چھوٹے صوبوں کی شکایات کو دور کریں اور ہر صوبے کو اس کا حق ملے۔ فروری 2010 میں وہ مستعفی ہوگئے، جس کی وجہ انہوں ذاتی مصروفیات بیان کیں تھی.

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سلک بینک میں شوکت ترین کے چھیاسی فیصد حصص تھے اور نئے سرمایہ کاروں کا یہ مطالبہ تھا کہ وہ بینک کے کاروبار کو مکمل وقت دیں۔ ان دنوں وہ ایوان بالا میں امیر ترین سینیٹر تھے ان کے پاس چوّن کروڑ پچپن لاکھ کی جائیداد، دو کروڑ اٹھارہ لاکھ روپے کی گاڑیاں اور مختلف مالیاتی ادراوں اور بینکوں میں تین ارب روپے کی سرمایہ کاری بھی ہے.


نیب کیس؟

ایک رپورٹ کے مطابق: سابق وزیر اعظم پرویز اشرف کے ساتھ شوکت ترین کے خلاف رینٹل پاور پراجیکٹ کا قومی احتساب بیورو میں ریفرنس دائر تھے، جس میں سے احتساب عدالت نے انہیں بری کردیا تھا تاہم قومی احتساب بیورو نے اس کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر رکھی۔رینٹل پاور کیس میں راجہ پرویز اشرف سمیت دیگر ملزمان پر سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے دور میں کرپشن اور اختیارات سے تجاوز کا الزام تھا جبکہ نیب کا الزام تھا کہ راجہ پرویز اشرف نے اس دور میں بطور وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی کرائے کے بجلی گھروں کے منصوبوں کی منظوری دی تھی جس سے خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا تھا.

واضح رہے کہ شوکت ترین پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ انھوں نے وزیر خزانہ کے منصب کے باوجود اپنے سلک بینک کےلیے زر (ایکوٹی) کا انتظام کیا تھا، جو کانفلیکٹ آف انٹریسٹ تھا۔ خیال رہے کہ شوکت ترین تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کے کزن ہیں، ایک دفعہ ٹی وی اینکر شاہد مسعود نے اپنے ایک پروگرام میں دعویٰ کیا تھا کہ وہ اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید کے رشتے دار ہیں، یاد رہے کہ انور مجید سابق صدر آصف زرداری کے دیرینہ دوست ہیں۔

اب یہاں پر سوال پھر وہی پیدا ہوتا ہے کہ تحریک انصاف والے کیسے یہ اسحاق ڈار کی تعیناتی پر اعتراض کرسکتے ہیں.

Shares: