حج کی کار گزاری
از حافظ احمد سعید جعفر

"الحمدللہ حج 1440 ھ بمطابق 2019 ء کا حج ادا کرنے کی سعادت حاصل کرلی ہے.
حج کے موقع پر انتظامات کے بارے میں ہر سال بہت سی خبریں گردش کرتی ہیں. اس سال چونکہ میں عینی شاہد ہوں تو سوچا دنیا کو حج کے انتظامات کے بارے میں تفصیل سے بتاؤں.
ہماری فلائیٹ نےمدینہ شریف لینڈ کیا اور ہم نے 8 دن مدینہ منورہ گزارے. ایئرپورٹ سے ہوٹل لے جانے کا انتظام تسلی بخش تھا. آرام دہ بسوں میں حاجیوں کو انکے ہوٹلز تک پہنچایا گیا. لیکن ہوٹل پہنچتے ہو ئے2 عدد پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا. ایک کمرے کی دستیابی تھا. چونکہ ہوٹل میں 4 اور 5 افراد کے لئے کمرے موجود تھے اس لئے 4 سے کم یا 5 سے زیادہ افراد پر مشتمل فیملیز کو دوسرے لوگوں کے ساتھ adjust کرنا پڑتا تھا اور لوگوں کی طرف سے اس سلسلے میں تعاون نہیں کیا گیا. جس سے حجاج کرام اور ہوٹل انتظامیہ کے درمیان بحث کا ماحول پیدا ہوا. دوسراہم پاکستانیوں کی روایتی بد نظمی تھی. قطار توڑ کر آگے بڑھنے کی کوششوں کی وجہ سے کمرے ملنے کا مرحلہ تاخیر کا شکار ہوا اور شور شرابہ اور بد مذگی بھی دیکھنے کو ملی. دوسری مشکل یہ پیش آئی کہ تمام حجاج کا سامان ہوٹل کی لابی میں لا کر رکھ دیا گیا. تمام حجاج نے اپنا سامان چن چن کر اکٹھا کیا اور لفٹس میں منتقل کر کے اپنے اپنے فلور تک پہنچایا. ہوٹل میں 3 عدد لفٹس موجود تھیں اور لفٹس کے دروازوں والی جگہ کافی تنگ تھی ایسے میں سینکڑوں حجاجِ کرام کا سامان سمیت آنا جانا کس قدر تکلیف دہ ہوگا آپ اندازہ لگا سکتے ہیں. ایسے وقت میں تگڑے اور ہوشیار لوگ داؤ لگا جاتے ہیں اور سیدھے سادھے, اور کمزور لوگ پیچھے رہ جاتے ہیں. خیر چند گھنٹوں میں ان دونوں مراحل سے فراغت حاصل ہوئی اور ہوٹل کے معاملات معمول پر آئے.
اب آپکو ہوٹل کے معاملات کے بارے میں تفصیل سے بتاتا ہوں. ہمارے ہوٹل کا نام مختارہ غربی ہوٹل تھا. یہ فندق مسجدِ نبوی شریف سے تقریباً 7 منٹ کی واک پر واقع تھا اس لئے مسجد آنے جانے میں سہولت رہتی تھی. ہوٹل خوبصورت اور ہائی فائی تھا. کمرے بہت اچھے تھے. واش روم, نکاسیِ آب وغیرہ کا نظام بھی پرفیکٹ تھا. کھانے کی فراہمی کسی کیٹرنگ سروس کے پاس تھی اور کھانے کا معیار عموماً اچھا ہی ہوتا تھا. تین ٹائم روٹی سالن کے علاوہ مندرجہ ذیل آئٹمز بھی مہیاء کیے جاتے تھے.
صبح کے ناشتے میں چائے
دوپہر کو ایک پھل (سیب یا مالٹا) اور لسی (جسے عربی میں لبن کہا جاتا ہے) کی بوتل.
رات کے کھانے میں قبطان نام کا ایک جوس اور سویٹ ڈش.
الحمدللہ مدینہ میں رہائش کے دوران کوئی تنگی کوئی پریشانی محسوس نہیں کی.
8 دن قیام کے بعد ہم مکہ مکرمہ روانہ ہوئے. اس مقصد کے لئے بھی بسوں کا انتظام اطمینان بخش تھا. لہٰذہ اس معاملے میں بھی راوی ok کی رپورٹ دیتا ہے.
مکہ مکرمہ میں عزیزیہ نامی علاقے میں بلڈنگز کے اندر حجاجِ کرام کو ٹھرایا گیا. ہم نے عزیزیہ کے بارے میں کافی منفی باتیں سن رکھی تھیں لیکن یقین کیجئے وہاں کا ماحول مدینہ کے ہوٹلز سے بھی زیادہ اچھا تھا اور بلڈنگ کا عملہ یعنی معاون حجاج الباکستان کا رویہ بہت خوش اخلاقی پر مبنی تھا. یہاں تک کہ مدینہ کے ہوٹل کے برعکس ہمارا سامان بسوں سے اتارنے سے لے کر, کمروں تک پہنچانے میں معاونین نےخوب تعاون کیا. اور بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ سارا سامان حجاجِ کرام کے مطلوبہ فلورز تک پہنچ گیا.
عزیزیہ کی ہماری بلڈنگ نمبر 702 سے مسجدالحرام کا سفر تقریباً 20 منٹ کی ڈرائیو کا ہے. ٹرانسپورٹ کا انتظام یوں ہے کہ 24 گھنٹے, چند منٹ کے وقفے سے بسیں چلتی ہیں ایک بس سات بلڈنگز کو cover کرتی ہے یعنی 7 بلڈنگز کے حجاج کی اپنی ایک بس ہوتی ہے جس میں وہ بلڈنگ کے باہر سے سوار ہوتے ہیں اور وہ بس حجاجِ کرام کو ایک بس اڈے تک چھوڑتی ہے. وہاں بہت سی بسیں حرم شریف جانے کے لئے تیار کھڑی ہوتی ہیں. حجاج کرام بلڈنگ کی بس سے نکل کر حرم جانے والی بسوں میں بیٹھتے ہیں اور وہ بسیں حرم سے کچھ فاصلے پر اتارتی ہیں. جہاں سے پیدل سفر 4 سے 5 منٹ کا ہوتا ہے. حرم شریف جانے کا عمل عموماً خوب اسلوبی سے طے ہوجاتا ہے لیکن واپسی پر بسوں میں سوار ہوتے ہوئے بھگ دڑ اور دھکم پیل کا سامنا کرنا پڑتا ہے.
کھانے کا نظام عزیزیہ میں بھی مدینہ سے زیادہ مختلف نہیں تھا Menu دونوں جگہ ایک سا تھا. مدینہ میںcatering service دینے والی کمپنی کا نام میں نہیں دیکھ سکا. مکہ میں یہ خدمت مطبخ عرفات نامی کمپنی مہیا کرتی ہے. مکہ اور مدینہ میں کھانے کے ذائقے میں مجھے 19 ,20 کا فرق محسوس ہوا مدینہ میں کھانے کا ذائقہ نسبتاً بہتر تھا.
اب کچھ مسجدِ نبوی شریف اور مسجد الحرام شریف کے انتظامات کی بات کر لی جائے. مسجدِ نبوی میں انتظامات اور سہولیات ہر لحاظ سے مسجد الحرام کی نسبت بہت بہتر لگے. صفائی, بیٹھنے جگہ کی فراہمی, واش رومز سب مسجد نبوی میں زیادہ بہتر ہیں. مسجد الحرام شریف میں بہت سے تعمیراتی کام جاری ہیں جنکی وجہ سے کچھ تنگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے. دوسرا یہ کہ یہاں شرطے بار بار بہت سے راستے بلاک کردیتے ہیں, کبھی کہیں سے لوگوں کو اٹھا دیتے ہیں کبھی یہاں سے وہاں منتقل کر دیتے ہیں. اس لئے مسجد الحرام میں دیر تک سکون سے ایک جگہ بیٹھ کر عبادت کرنا بہت مشکل کام ہے. راستے بند کرنے میں یقیناً کوئی انتظامی حکمت عملی ہوگی لیکن سچی بات یہ ہے کہ اسکی وجہ سے حجاج کو بہت تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے. مجھے خود اس وجہ سے بہت مشکل ہوئی تھی.
خیر, مجموعی طور پر مکہ اور مدینہ دونوں میں رہائش, کھانے اور ٹرانسپورٹ کے انتظامات بہت اچھے تھے.
اب بات کرتے ہیں حج کے ایام کی.
پہلے آپ یہ سمجھ لیجئے کہ حج کا ایام میں حاجیوں کے انتظامات بہت سی چھوٹی چھوٹی کمپنوں کو دیے ہوتےہیں جنہیں مکتب کہا جاتا ہے. حجاجِ کرام کو تقریباً 125 مکاتب میں تقسیم کیا گیا ہے. ہر مکتب کا ایک معلم ہوتا ہے جس کے زمے ایامِ حج کے دوران منیٰ, عرفات, مزدلفہ میں اپنے اپنے حاجیوں کا انتظام کرنا ہوتا ہے. ہمارا مکتب نمبر 100 تھا. جس کا انتظام عبدالرحمٰن…… عبداللہ وھبی نامی معلم کے ذمے تھا. اور ان موصوف نے اپنی ذمے داریاں بڑے کمال برے طریقے سے سرانجام دیں. منیٰ میں ہمیں گندے پانی میںchlorine ڈال کر پلایا جاتا رہا. کھانا بہت دیر سے ملتا تھا اور 2 دفعہ کے علاوہ ہمیشہ چنے کی پتلی دال کھلائی گئی جوکہ بہت سخت تھی. یعنی ہمارے مکتب میں کھانا نہایت ناقص تھا. ٹرانسپورٹ کو دیکھا جائے تو شائد سب سے کم بسیں مکتب نمبر 100 کے پاس تھیں جسکی وجہ سے بسوں میں چڑھتے ہوئے دھکم پیل اور بد نظمی انتہا کو ہوتی تھی. 4130 حجاج کے لئے 11 بسوں کا انتظام تھا جبکہ سننے میں آیا ہے کہ حکومتِ پاکستان نے موصوف سے 40 بسوں کا معاہدہ کر رکھا تھا. یوم, عرفہ کے دن ہمارے مکتب والے بہت تنگ ہوئے. غروبِ آفتاب کے بعد جب بسیں نکلیں تو سینکڑوں حجاج بسوں میں سوار نہ ہو سکے جن میں میں اور میرے گھر والے بھی شامل تھے. تقریباً ڈھائی 3 گھنٹے بعد بسیں واپس آئیں پھر بقیہ حجاجِ کرام بسوں میں سوار ہو پائے. معذور اور بیمار افراد کے لئے ایسی صورت میں بسوں میں چڑھنا ناممکن تھا اس وجہ سے میرا ایک روم میٹ جسکی والدہ ضعیف ہیں, انہیں ویل چیئر پر پیدل مزدلفہ جانا پڑا. یاد رہے عرفات سے مذدلفہ تک کا سفر 7 کلومیٹر سے زیادہ ہے. یہاں قصور ہماری عوام کا بھی ہے. پاکستانوں کی طرف سے بدنظمی اور خود غرضی کی انتہا دیکھنے کو ملی. ہر شخص دوسرے کی ٹانگ کھینچ کر خود آگے بڑھنے کو کوشش میں رہتا ہے. ہمیں کئی دفعہ دوسرے ممالک کے عہدیداروں سے طعنے سننے کو ملے کہ پاکستانیوں کا کوئی نظام نہیں, پاکستانیوں میں عقل سمجھ نہیں.
قصہ مختصر, مکہ اور مدینہ دونوں مقدس شہروں میں حجاج کے لئے انتظامات کافی اچھے تھے جس پر میں پاکستان اور سعودی حکومت کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں. البتہ حکومت پاکستان سے گزارش ہے کہ عبدالرحمٰن عبداللہ وھبی نامی معلم کو بلیک لسٹ کیا جائے اور مکتب 100 کی زمہ داری کسی آئندہ کسی ایماندار اور قابل معلم کے سپرد کی جائے.

Shares: