سوشل میڈیا آج کل ہمارے اذہان پر بری طرح سے حاوی ہے، جہاں ہر طرف فرضی میدان جنگ سجے رہتے ہیں ، مختلف ٹرینڈز اور مہمات چلتی رہتی ہیں ۔ اس جنگ کی افادیت سے انکار ممکن نہیں ، لیکن عموما ہمارے ہاں فریقین اپنے ذاتی تعصب ،رجحان اور مسلکی ، سیاسی و معاشی وابستگی کی بنیاد پر نبرد آزما رہتے ہیں ۔
سوشل میڈیا پر پچھلے کچھ دنوں ایک مہم یا ٹرینڈ #الحجر_الأسود_مكانه_الكعبة_فردوه ( حجر اسود کا مقام کعبہ ہے اسے وہاں لوٹا دو )کے نام سے بڑے زور وشور سے گردش کرتا رہا ، اگرچہ اردو حلقوں میں اس کی ابتداء ابھی ہوئی ہے اور اس شدت سے اس بارے میں گفتگو نہیں کی جارہی مگر عرب اور ترک حلقوں میں اس بارے میں کچھ عرصہ قبل سے کافی زور و شور سے مباحثے چل رہے تھے ۔
اس سلسلے میں دلچسپ امر یہ کہ سلطنت عثمانیہ کو قرامطہ کے ساتھ تشبیہ دی جارہی ہے کہ جیسے قرامطہ نے حرم مکی سے بزور قوت حجر اسود اٹھایا ، بیت اللہ کی حرمت کو پامال کیا اور حجر اسود اپنے ساتھ لے گئے ، وہی طرز عمل سلطنت عثمانیہ کا تھا۔یقینا حجرا سود کی چوری ایک ایسا معاملہ ہے جس سے مسلمانوں کو آسانی کے ساتھ مشتعل اور ان کے جذبات کو بھڑکایا جا سکتا ہے ۔
اس معاملے میں زیادہ گرمجوشی اس وقت آئی جب سعودیہ کے شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک فرد نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ ترکی کو حجر اسود کے ٹکڑے واپس کرنے چاہئیں ، کیونکہ یہ دو ارب مسلمانوں کی ملکیت ہیں اور اس عمل کو اس شخص نے ایسی چوری کا نام دیا جس پر ترک بڑی ڈھٹائی سے فخر کرتے ہیں ۔
یہاں اس معاملے کو واضح کرنے کے ساتھ ساتھ ابتداء میں دو تین باتیں گوش گزار کرنا ضروری ہیں: پہلی بات تو یہ کہ سلطنت عثمانیہ انسانوں کی ہی قائم کردہ ایک حکومت تھی جس میں نہ تو فرشتوں کی سی معصومیت تھی اور نہ ہی وہ شیطان کی مانند مجسم شر ۔
خیر و شر دونوں معاملات اس میں موجود تھے ، چنانچہ نہ تو ان کی غلطیوں کا بے جا دفاع کرنا چاہئے اور نہ ہی غلطیوں کو بنیاد بنا کر اس سلطنت سے حاصل ہونے والی تمام تر خیر و بھلائی کو بیک جنبش قلم رد کرنا چاہئے ۔
دوسرا یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ حالیہ عرصے میں اس مسئلہ کو ہائی لائیٹ کرنے کی وجہ دینی حمیت و غیرت یاشرعی بنیادنہیں بلکہ سیاسی وجوہات ہیں ۔
ورنہ ماضی میں ترک مساجد میں حجر اسود کے ٹکڑوں کی موجودگی سے متعلق شور کیوں نہ اٹھایا گیا؟ سعودیہ وترکی کے مابین حالیہ کشمکش سے قبل اس طرح کا مطالبہ کبھی کیوں نہ سنا گیا؟
ایسا تو نہیں تھا کہ یہ کوئی راز ہو جو لوگوں کی نظروں سے مخفی تھا اور اچانک ہی اس کا انکشاف ہوا اس بات سے تو سبھی واقف تھے ، بلکہ شاید آپ کو تعجب ہو کہ سعودی میڈیا میں اس سے قبل اس کا ذکر ایک تاریخی واقعے کے طور پر ہوتا تھا جس کے ساتھ کسی کی مذمت و تنقیص یا حوالگی کا مطالبہ نہیں کیا جاتا تھا۔جس کا لنک آخر میں دیا گیا ہے )
لیکن حالیہ کچھ عرصے میں چونکہ سعودی عرب اور ترکی کے باہمی معاملات کچھ بگڑ گئے تو فریقین ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے یا ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔
اس سلسلے سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمیں بنیادی مسئلہ کا علم تو ہو کہ مسئلہ ہے کیا …؟ حجر اسود کے ٹکڑے استنبول پہنچے کیسے …؟اور ان کا حجم کتنا ہے… ؟
مجھے بڑی حیرت ہوئی جب ایک اچھے خاصے دانشور شخص کی پوسٹ میں پڑھا کہ سلطان سلیمان قانونی 1571 ء میں حجر اسود کے چھ ٹکڑے ترکی لے گئے، اچھے خاصے سمجھدار شخص کا یہ حال ہے ، جسے یہ تک علم نہیں کہ سلطان سلیمان ایک تو خود اپنی زندگی میں کبھی مکہ مکرمہ گئے ہی نہیں اور دوسرا یہ کہ 1571ء سے قبل ہی وہ وفات پا چکے تھے ۔
بہرحال اس سلسلے میں سعودی نیوز ایجنسی "الوکہ ” کی جانب سے ہی نشر کردہ ایک رپورٹ سے معلومات ذکر کرتاہوں جس میں وہ سکوللو محمد پاشا مسجد کے امام محمد سانجاک کے حوالے سے ذکر کرتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ :
یہ پانچ ٹکڑے ہیں جن میں سے چار کا قطر لگ بھگ ایک سینٹی میٹر ہے جبکہ سب سے بڑا پانچواں ٹکڑا جو سلیمان قانونی کے مزار پر نصب ہے اس کا حجم 3 سینٹی میٹر ہے۔
اس کی آمد کی تفصیل یہ ہے کہ کعبہ کی ترمیم و مرمت کے دوران کچھ ٹکڑے حجر اسود سے الگ ہو کر گر گئے ، کام کرنے والے کاریگر ان ٹکڑوں کو اپنے ہمراہ استنبول لے آئے ۔جب ان کی آمد کا چرچا ہوا تو انھیں تلاش کیا گیا کہ یہ ٹکڑے کن کے پاس ہیں انھیں انعام دے کر ان ٹکڑوں کو واپس اس کی جگہ پر نصب کرنے کا حکم دیا گیا۔ اس دوران سنان پاشا معروف معمار نے تجویز دی کہ یہ ٹکڑے معزز مہمان کے طور پر ہمارے ہاں ہی باقی رہیں ۔
پھر سنان پاشانے ان میں سے چار ٹکڑوں کو سونے کے فریم میں سجا کر سکوللو محمد پاشا مسجد میں( جسے وہ اس وقت تعمیر کر رہا تھا) مختلف مقامات پر نصب کیا جہاں آج تک یہ موجود ہیں ۔
جبکہ چھٹا ٹکڑا جو ادرنا کی اسکی مسجد میں منبر و محراب کے درمیان موجود ہے یہ ان پتھروں کا حصہ ہے(جبکہ کچھ کے نزدیک حجر اسود کا ہی حصہ ہے ) جو کعبہ میں نصب تھے اور شدید بارشوں کی وجہ سے گر گئے ۔
اس سلسلے میں قابل غور یہ کہ کیا سلطنت عثمانیہ کے اس عمل کو قرامطہ کے طرزعمل کے ساتھ تشبیہ دینا درست ہے ؟
قرامطہ جنہوں نے یوم ترویہ (8 ذوالحجہ)کو بیت اللہ پر حملہ کر کے حجاج کرام کو شہید کیا ، ان کے اموال کو لوٹا اور حجر اسود کو اکھاڑ کر اپنے ہمراہ لے گئے۔
قرامطہ نے وحشیانہ جارحیت ، بدترین مظالم کے ساتھ بیت اللہ کی حرمت اور دیگر کئی حرمات کو پامال کرتے ہوئے لوٹ مار کر کے اسے غصب کیا.
جبکہ عثمانیوں نے مرمت کے دوران اس کے کچھ ٹکڑوں کو تبرک کے طور پر اپنے پاس پورے اعزاز کے ساتھ رکھا اور اسے ایک معزز مہمان کے طور پر جانتے ہوئے اس پر کی اپنی ہاں موجودگی کو باعث شرف سمجھتے ہیں ۔
قرامطہ کے اس گھناؤنے عمل کا محرک کعبہ اور مسجد حرام سے ان کی نفرت و بغض تھا اور وہ کعبہ کے گرد طواف کو بتوں کی عبادت کی مانند سمجھتے تھے ، جبکہ عثمانی حرمین کے محافظ ، اس کی توقیر کرنے والے تھے ۔ ان دونوں کے درمیان بھلا کیسے برابری ہو سکتی ہے ؟
یہاں ہمارا مقصد عثمانیوں کے اس عمل کا دفاع کرنا یا اس پر حسن و قبح کا حکم لگانا نہیں بلکہ محض حقیقی واقعہ سے آگاہی ہے ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اگرہم اس واقعتا دینی حمیت کی بنیاد پر شرعی تقاضوں کے ساتھ حل کرنے کے خواہش مند ہیں تو امت کے حقیقی رہنما ، علماء حق اس مسئلے پر مل کر بیٹھیں اور اس کا حل پیش کریں ، نا کہ اپنے سیاسی مقاصد اور حریف کونیچا دکھانے کیلئے الزام تراشی اور حقیقی صورتحال سے کہیں زیادہ واقعہ کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جائے ۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ امر بھی روز بروز اہمیت پکڑتا جا رہا ہے کہ اس مسئلے میں ہمیں سعودی شاہی خاندان یا اردگان کے کھینچے ہوئے محدود دائرے سے نکلنے کی اشد ضرورت ہے ۔ ہم تاریخ کا مطالعہ ضرور کریں لیکن ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کیلئے نہیں اس سے سیکھنے کیلئے !
ان غلطیوں کے اعادے سے بچنے کیلئے جنہوں نے ہمیں آج اس حال تک پہنچایا۔
الوکۃ نیوز ایجنسی پر حجر اسود کے ٹکڑوں کی إسطنبول آمد کے پس منظر پر تحریر کا لنک
https://www.alukah.net/translations/0/35944/
ماضی میں سعودی اخبار میں حجر اسود کے ان ٹکڑوں کے بارے میں رپورٹ کا لنک
https://www.al-madina.com/article/119533