غلط ہے توحکومت 9 سال سے ہم سے انٹرنیٹ کیوں بند کرواتی ہے، چیئرمین پی ٹی اے

chairman pta

پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے چیئرمین حفیظ الرحمان نے کہا ہے کہ آج پہلی بار پتہ چلا کہ انٹرنیٹ کی بندش غلط ہوتی ہے۔

سینیٹر پلوشہ خان کی زیرِ صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا اجلاس ہوا، اجلاس میں وزارت آئی ٹی اور پی ٹی اے نے انٹرنیٹ کی بندش اور اس سے متعلق مسائل پر بریفنگ دی۔چیئرمین پی ٹی اے نے مزید بتایا کہ پی ٹی اے کو روزانہ سوشل میڈیا پر مواد کی 500 شکایات موصول ہوتی ہیں، جس پر پی ٹی اے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو مواد بلاک کرنے کی درخواست کرتا ہے۔ تاہم، اجلاس کے دوران مختلف سینیٹرز نے انٹرنیٹ کی بندش کے قانونی پہلوؤں پر سوالات اٹھائے اور اس حوالے سے پی ٹی اے کے موقف کو چیلنج کیا۔

سینیٹر کامران مرتضیٰ نے اجلاس کے دوران کہا کہ "ایکٹ میں کہاں لکھا ہے کہ کسی خاص علاقے میں انٹرنیٹ بلاک کرنا ہے؟” اس پر ممبر لیگل وزارت آئی ٹی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایکٹ میں کسی خاص علاقے میں انٹرنیٹ بند کرنے کا ذکر نہیں ہے۔ اس کے بعد چیئرمین پی ٹی اے حفیظ الرحمان نے وضاحت دی کہ رولز میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ وزارت داخلہ پی ٹی اے کو انٹرنیٹ کی بندش کی ہدایت دے سکتی ہے۔

سینیٹر کامران مرتضیٰ نے سوال اٹھایا کہ اگر ایکٹ میں انٹرنیٹ بند کرنے کا جواز نہیں دیا گیا تو پی ٹی اے اس عمل کو کیسے قانونی بنا سکتا ہے؟ جس پر چیئرمین پی ٹی اے نے جواب دیا کہ اگر یہ غلط ہوتا تو حکومت نو سال سے پی ٹی اے کو انٹرنیٹ بند کرنے کی ہدایت کیوں دیتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ تاریخ اور وقت بتا سکتے ہیں جب انٹرنیٹ بند کیا گیا تھا۔سینیٹر ہمایوں مہمند نے اس بات پر زور دیا کہ رولز میں صرف سوشل میڈیا پر مواد کے حوالے سے بات کی گئی ہے، تاہم انٹرنیٹ کی بندش کے بارے میں کسی واضح ذکر کا فقدان ہے۔ اس پر چیئرمین پی ٹی اے نے کہا کہ اس حوالے سے حتمی قانونی رائے وزارت قانون اور وزارت داخلہ دے سکتی ہے۔چیئرمین پی ٹی اے نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے حکم پر کئی بار سوشل میڈیا ایپس بند کی گئی ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا 8 فروری کو ہونے والے الیکشن کے دوران انٹرنیٹ کی بندش بھی غلط تھی ، سپریم کورٹ کے حکم پر انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا ایپس کو بند کیا گیا۔بلوچستان میں ڈیجیٹل ہائی وے بنانا پڑے گا،انٹرنیٹ کی فراہمی کے لئے ڈیجیٹل ہائی وے بنانے پڑیں گے جب تک ڈیجیٹل ہائی وے نہیں بنائیں گے انٹرنیٹ ٹھیک نہیں ہوگا،صوبائی حکومتوں سے درخواست کریں کہ سہولت فراہم کریں یہاں تو کام شروع کرتے ہیں لوگ عدالت میں چلے جاتے ہیں

سینیٹر کامران مرتضیٰ نے سوال کیا کہ کیا رولز ایکٹ سے آگے جا سکتے ہیں؟ اگر سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے تو کیا وزارت نے اس پر نظرثانی دائر کی ہے؟ اس پر سیکریٹری آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام نے بتایا کہ رولز کئی سال پہلے بنے تھے اور ان میں انٹرنیٹ کی بندش کے حوالے سے کسی نئی ترمیم یا نظرثانی کی ضرورت ہو سکتی ہے۔

اس اجلاس میں مختلف سینیٹرز اور حکومتی اداروں کے نمائندگان کے درمیان بحث کا محور انٹرنیٹ کی بندش کے حوالے سے قانون، حکومت کی ہدایات اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کے اثرات تھے۔ اس بات پر اتفاق ہوا کہ اس معاملے پر مزید قانونی وضاحت کی ضرورت ہے، جس کے لیے وزارت قانون اور وزارت داخلہ کی مشاورت ضروری ہو گی۔یہ اجلاس اس بات کا غماز ہے کہ انٹرنیٹ کی بندش اور سوشل میڈیا پر مواد کی نگرانی ایک پیچیدہ قانونی اور انتظامی مسئلہ ہے جسے واضح قوانین اور ضوابط کی ضرورت ہے تاکہ اس حوالے سے آئندہ میں کسی قسم کی ابہام کی صورتحال پیدا نہ ہو۔

قومی اسمبلی اجلاس،پیپلز پارٹی اراکین کی سست انٹرنیٹ پر حکومت پر سخت تنقید

انٹرنیٹ اہم ضرورت لیکن پاکستان میں اس کی اسپیڈ کم ہے،شزہ فاطمہ

انٹرنیٹ کی بندش،سست رفتاری نے پاکستانیوں کو پریشان کر دیا

انٹرنیٹ کی سست رفتاری کا اثر فری لانسرز پر، کام میں 70 فیصد کمی

Comments are closed.