26ویں آئینی ترمیم: حکومت کا مجوزہ مسودہ، اہم ترامیم اور قانونی تبدیلیاں
اسلام آباد: حکومت کی جانب سے 26ویں آئینی ترمیم کا مجوزہ مسودہ سامنے آیا ہے، جو عدالتی اور آئینی ڈھانچے میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ مسودہ 12 صفحات اور 24 نکات پر مشتمل ہے، جس میں آئین میں کئی اہم ترامیم اور نئے قوانین شامل کرنے کی تجاویز دی گئی ہیں۔ حکومت کا یہ قدم عدالتی اصلاحات اور آئینی اختیارات کے توازن کو بحال کرنے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، جس میں سپریم کورٹ، ہائی کورٹس اور جوڈیشل کمیشن کے طریقہ کار میں تبدیلیاں شامل ہیں۔اس مجوزہ ترمیم کا ایک بڑا نکتہ آئینی ڈویژن کا قیام ہے، جسے نیا آرٹیکل 191 اے کے تحت متعارف کرایا جا رہا ہے۔ اس کے مطابق سپریم کورٹ میں ’’آئینی ڈویژن‘‘ بنایا جائے گا، جسے عدالتی نظام میں اہم کردار دیا جائے گا۔ آئینی ڈویژن کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ آئینی اپیلوں، صدارتی ریفرنسز، اور سوموٹو نوٹس پر مقدمات کی سماعت کرے۔اس ڈویژن کے تحت سپریم کورٹ کا کوئی جج براہ راست اوریجنل اختیار سماعت یا سوموٹو مقدمات کی سماعت نہیں کرے گا۔ آئینی مقدمات میں تین رکنی بینچ آئینی ڈویژن میں سماعت کرے گا، جس میں سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج شامل ہوں گے۔ آئینی اپیلوں اور صدارتی ریفرنسز کی سماعت بھی تین رکنی بینچ کرے گا، جس سے عدالتی عمل میں شفافیت اور زیادہ مستعدی کی توقع کی جا رہی ہے۔
مجوزہ مسودے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد کا تعین جوڈیشل کمیشن کرے گا، اور اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ تمام صوبوں کو ججز کی تقرری میں مساوی نمائندگی ملے۔ یہ قدم اس لیے تجویز کیا گیا ہے تاکہ عدالتی اداروں میں تمام صوبوں کی شراکت داری اور انصاف کی فراہمی میں توازن برقرار رکھا جا سکے۔ایک اور بڑی تجویز آرٹیکل 179 میں ترمیم کے تحت پیش کی گئی ہے، جس کے مطابق چیف جسٹس کی مدت کو زیادہ سے زیادہ تین سال تک محدود کر دیا جائے گا۔ چیف جسٹس اگرچہ 65 سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے بھی ریٹائر ہو سکتے ہیں۔ اس ترمیم کا مقصد عدالتی نظام میں نئے افراد کی شمولیت کو یقینی بنانا اور زیادہ متحرک عدالتی قیادت کو سامنے لانا ہے۔آرٹیکل 184 (3) کے تحت سپریم کورٹ کے سوموٹو اختیارات کو محدود کرنے کی تجویز بھی شامل ہے۔ سوموٹو نوٹس یا اوریجنل جورسڈکشن کے مقدمات کی سماعت صرف آئینی ڈویژن کا تین رکنی بینچ کر سکے گا۔ اس ترمیم کا مقصد سپریم کورٹ کے سوموٹو اختیار کو ایک منظم اور واضح دائرہ کار میں رکھنا ہے، تاکہ یہ اختیار بے جا استعمال سے بچ سکے۔
مجوزہ ترمیم میں آرٹیکل 243 میں نئی شق 5 شامل کرنے کی تجویز دی گئی ہے، جس کے تحت چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف اور سروسز چیفس کی دوبارہ تقرری اور توسیع کو آئینی تحفظ دیا جائے گا۔ ان قوانین میں ترمیم کے بغیر رد و بدل ممکن نہیں ہوگا، اور اس مقصد کے لیے آئین میں ایک نیا آٹھواں شیڈول بھی شامل کیا جائے گا۔جوڈیشل کمیشن کے حوالے سے بھی کئی اہم ترامیم پیش کی گئی ہیں۔ آرٹیکل 175 اے میں ترمیم کے تحت کمیشن کے موجودہ اراکین برقرار رکھے جائیں گے، جبکہ اس میں 4 پارلیمنٹیرینز کو شامل کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ کمیشن کے ایک تہائی اراکین کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ چیئرپرسن کو اجلاس بلانے کی درخواست کر سکیں، اور چیئرپرسن کو 15 دن کے اندر اجلاس بلانے کا پابند بنایا جائے گا۔ اگر چیئرپرسن اجلاس نہ بلائے تو سیکریٹری کو 7 دن کے اندر اجلاس بلانے کا اختیار ہوگا۔آرٹیکل 63 میں ترمیم کی گئی ہے جس کے مطابق دہری شہریت کے حامل افراد انتخابات میں حصہ لینے کے اہل ہوں گے، تاہم انہیں منتخب ہونے کے 90 دن کے اندر اپنی غیر ملکی شہریت ترک کرنا ہوگی۔ اسی طرح آرٹیکل 63 اے میں ترمیم کے تحت منحرف رکن کا ووٹ بھی شمار کیا جائے گا، جس سے پارٹی وفاداری سے انحراف کرنے والے ارکان کے حقوق کو تقویت ملے گی۔
مجوزہ آئینی ترمیم میں ایک نیا آرٹیکل 9 اے متعارف کرایا گیا ہے، جس کے تحت صحت مندانہ اور پائیدار ماحول کو ایک بنیادی حق قرار دیا گیا ہے۔ یہ ایک اہم پیشرفت ہے جس کا مقصد ماحولیاتی تحفظ کو آئینی حیثیت دینا ہے، تاکہ مستقبل میں ماحولیات کے حوالے سے مؤثر اقدامات کیے جا سکیں۔مجوزہ مسودے کے مطابق چیف الیکشن کمشنر اور ممبران کو مدت مکمل ہونے کے بعد نئی تقرری تک 90 دن تک اپنے عہدوں پر برقرار رہنے کا حق دیا جائے گا۔ پارلیمنٹ کی قرارداد کے ذریعے چیف الیکشن کمشنر اور اراکین کی دوبارہ تقرری بھی ممکن ہوگی۔ اس کے علاوہ آرٹیکل 111 میں ترمیم کی گئی ہے جس کے تحت صوبائی مشیروں کو اسمبلی میں خطاب کا حق دیا جائے گا۔آرٹیکل 186 اے میں ترمیم کی گئی ہے جس کے تحت سپریم کورٹ کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ مقدمہ یا اپیل کسی دوسری ہائی کورٹ کو منتقل کر سکے، اور خود کو بھی منتقل کرنے کا حق حاصل ہوگا۔ اس سے سپریم کورٹ کو زیر سماعت مقدمات میں زیادہ لچک اور آزادی ملے گی۔آرٹیکل 209 میں ترمیم کے تحت چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس کی صورت میں سپریم جوڈیشل کونسل کے سینئر ترین جج کو شامل کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ مزید یہ کہ ججز کو ہٹانے کی وجوہات میں ناقص کارکردگی کو بھی شامل کیا گیا ہے، اور اس کے لیے جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کو بنیاد بنایا جائے گا۔
حکومت کی طرف سے پیش کی گئی یہ آئینی ترمیم ملکی عدالتی اور آئینی ڈھانچے میں بڑی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔ اس مجوزہ ترمیم پر سیاسی اور عدالتی حلقوں میں بحث اور تنقید جاری ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق اس ترمیم سے عدالتوں کے اختیارات میں توازن پیدا ہو سکتا ہے، تاہم اس کے عملی نتائج کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ یہ ترمیم کس طرح سے نافذ ہوتی ہے اور اس پر عملدرآمد کس حد تک شفاف اور مؤثر ہوگا۔حکومت کا یہ اقدام کئی حلقوں میں بحث کا موضوع بن چکا ہے۔ قانونی ماہرین اور سیاسی تجزیہ کاروں کے درمیان اس ترمیم کے اثرات پر مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ بعض ماہرین کے مطابق یہ ترامیم عدالتی نظام میں بہتری لا سکتی ہیں، جبکہ کچھ حلقوں نے ان ترامیم کو عدالتی خود مختاری کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔حکومت نے اس مسودے کو جلد پارلیمنٹ میں پیش کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے، جس کے بعد اس پر مزید بحث اور فیصلے کی توقع کی جا رہی ہے۔