جیو سٹریٹیجک مقام، پاکستان کا دوام، وسطی ایشیا کا در، دشمنوں کیلئے ڈر، معدنی وسائل سے مالامال، یہی خصائص جان کا وبال، پاکستان کی جان ہمارا بلوچستان
سکندر اعظم سے نادرشاہ تک اورمنگولوں سے انگریزوں تک، بلوچستان کی تاریخ قدیم بھی ہے اورجنگجویانہ بھی ممتازتاریخ دان ہرزفیلڈ کے مطابق لفظ بلوچ کے معنی "بلند چیخ” کے ہیں۔ جبکہ کچھ تاریخی کتب میں بلوچ کے معنی "اعلیٰ طاقتور” بیان کئے گئے ہیں۔ تہذیب وثقافت ہو یاطرز بودوباش، لباس ہو یا اقدار، بلوچوں کی روایات سب سے منفرد اور مختلف ہیں۔
رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ، سب سے زیادہ پسماندگی کا شکار ہے۔ بلوچستان، اپنے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے، ہمیشہ سے اپنے اور پرائے کی آنکھوں میں یکساں کھٹکتا، دنیا کے حساس ترین خطوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ خطہ ارض وسط ایشیا کا دروازہ بھی ہے اور گرم پانیوں تک رسائی کا ذریعہ بھی۔ طویل ساحل اور بیش بہا قدرتی وسائل کی بنیادپر ایشیا سے لیکر یورپ تک ہرعالمی طاقت نے اس پر تسلط کے خواب دیکھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک کبھی گریٹر بلوچستان تو کبھی آزاد بلوچستان کے نام پر عالمی طاقتیں اس کو اپنے زیر نگیں لانا چاہتی ہیں۔
گوادر پورٹ ہو یا چائنا پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ؛ بلوچستان، جہاں ایک طرف غیر ملکی سرمایہ کاروں اور صنعتکاروں کی توجہ کا مرکز بن چکا وہیں پر امن و امان اور روشن مستقبل کو سبوتاژ کرنے کیلئےدہشتگرد اورعلیحدگی پسند قوتوں کی جارحیت کا بھی مسلسل نشانہ بنا رہاہے۔
لیکن اب موجودہ حالات میں بلوچستان تاریخ کے اہم ترین موڑ پرکھڑا ہے۔ دشمنوں اپنے ناپاک عزائم سمیت پورے طور پرآشکارہوچکےہیں۔ کبھی کلبھوشن یادیو کی صورت میں ازلی دشمن کا مہرہ اپنی چالوں سے خطے کو غیر مستحکم کرنے کی ناکام کوششیں کرتا تو کبھی بظاہر دوست بنے آستین کے سانپ فرقہ ورانہ فسادات کی آڑ میں امن و سکون کی دھجیاں بکھیر دیتے۔ لیکن شاید وہ اس حقیقت سے ناواقف ہیں کہ بلوچ سر کٹ تو سکتا مگر جھک نہیں سکتا۔
فی الوقت بلوچستان دو مختلف ادوار سے ایک ساتھ گزر رہا ایک طرف جا بہ جا بکھرے، چشم انسانی سے پوشیدہ، جلوے بکھیرتے قدرتی نظارے: اسرار میں ڈوبی جھیلیں، رنگ رنگ کے پہاڑ، بیش قیمت پتھروجواہرات، رسیلے تازہ پھل، دل موہ لیتی آبشاریں، گنگناتے چشمے، جھھومتے جھرنے ہیں، جبکہ دوسری طرف پسماندگی، غربت، جہالت، بےروزگاری،احساس محرومی، ناکافی ترقیاتی سرمایہ کاری، قبیلوں و قومیتوں میں بٹے، نسلوں سے نوابوں اور سرداروں کی غلامی کرتے بلوچ عوام، اور اندرونی و بیرونی ریشہ دوانیوں کا شکار معصوم جوان۔ وسائل اور مسائل کے درمیان حائل گہری خلیج نے برسوں سے اس خطے کو شرپسندوں کی آماجگاہ بنا رکھا ہے۔
بلاشبہ ماضی میں یہ صوبہ غیر مربوط منصوبہ بندی اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے بدحالی اور پسماندگی کا شکار رہا ہے۔ ماضی کی حکومتوں کے بلوچستان کیطرف معاندانہ رویے بھی بلوچ جوانوں میں بغاوت کی ایک بہت بڑی وجہ بنے ہیں حکومت اور عوام کا ٹکراؤ ہمیشہ غیر ضروری پیچیدگیوں کو جنم دیتا۔ نظریاتی سوچ کا چورن بیچتے قوم پرست سردار، غیر ملکی قوتوں کی پشت پناہی سے، چند نوجوانوں کو ورغلا کر اپنی ہی ریاست کیخلاف علم بغاوت بلند کئے ہوئے ہیں۔
اس حقیقت کو فراموش کئے کہ غدار کی نہ تو کوئی عزت ہوتی نا وقار۔ بھٹکے ہوئے بلوچ نوجوان نواب، میر، سردار کے گرد گھومتی سیاست کی بھول بھلیوں میں بھٹک کر رہ گئے ہیں۔ تاریخی دوراہے پر کھڑا پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ترقی کی دہلیز پر ہے۔ خوشحال بلوچستان کا صدیوں پرانا خواب شرمندہ تعبیر ہونے کو ہے۔ لیکن یہ تعمیر و ترقی دشمنان وطن کو کیسے ہضم ہوسکتی؟ مشرقی بارڈر سے لیکر مغربی بارڈر تک، دشمن حسد و جلن کی آگ میں جل رہے اور ان کی پوری کوشش کہ اس آگ کی لپٹیں خاکم بدہن بلوچستان کو جلا کر راکھ کر دیں۔ لیکن انشاء اللہ العزیز وہ اپنے مذموم مقاصد میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکیں گے کیونکہ دشمن کے راستے کی سیسہ پلائی ہوئی دیوار وہ غیور بلوچ سردار و جوان ہیں جن کا جینا مرنا پاکستان کیلئے ہے جو مر تو سکتے مگر مادر وطن سے غداری کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ رہی بات باقی صوبوں کے عوام کی تو وہ بخوبی اس حقیقت سے واقف ہیں کہ بلوچستان کی خوشحالی پاکستان کی خوشحالی ہے۔ غیرت مند بلوچ نہ تو کبھی پاکستان کا دشمن ہو سکتا نہ کبھی دشمن کا آلہ کار بن سکتا۔
بقول اقبال
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہرفرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
پاکستان زندہ باد
@once_says








