پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا جب بھی کہیں پر ذکر آئے گا سب سے پہلے ڈاکٹر عبد القدیر خان کا نام لیا جائے گا۔۔ پاکستان کو پہلی اسلامی ایٹمی طاقت بنانے میں انہوں نے مرکزی کردار ادا کیا۔

ڈاکٹرعبد القدیر خان 27اپریل 1936کو ہندوستان کے شہر بھوپال میں پیدا ہوئے آپ سات بہن بھائیوں میں چھٹے نمبر پر تھے،آپکے والد شعبہ تعلیم سے وابستہ تھے،وہ اپنے شاگردوں اور بچوں کو جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ اسلامی نقطہء نظر سے انکی اخلاقی تربیت پر بھی خاص توجہ دیتے تھے ڈاکٹر عبد القدیر خان صاحب کو مچھلیاں پکڑنے اور ہاکی کھیلنے کا بھی شوق تھا۔۔۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان نے ڈی جے سائنس کالج کراچی سے ایف ایس سی کا امتحان پاس کیا۔۔کالج کی تعلیم کے دوران انہیں فزکس کے مضمون سے بھی لگاؤ رہا، بی ایس سی کرنے کے بعد آپ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے جرمنی چلے گئے، آپ ہالینڈ اور بلجیئم بھی گئے،ڈاکٹریٹ کرنے کے بعد آپ ہالینڈ کی ایک فرم ایف ڈی او میں ملازمت اختیار کی۔۔یہ فرم ان دنوں کئی یورپی ممالک کےایک مشترکہ منصوبے کیلئے ہالینڈ میں یورینیم کے افزودگی کے پلانٹ تعمیر کررہی تھی۔۔ یورینیم کی افزودگی کا مطلب اسے ایٹمی توانائی حاصل کرنے کے قابل بنانا تھا۔۔ڈاکٹر عبد القدیر خان جن دنوں جرمنی میں ڈاکٹریٹ کررہے تھے انہی دنوں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا المناک حادثہ پیش آیا تھا۔۔۔ ڈاکٹر صاحب بھی دیگر ہم وطنوں کی طرح شدید ذہنی صدمے سے دوچار تھے۔۔۔ انکے دل میں اس واقعے کے بعد وطن عزیز کیلئے کچھ کر گزرنے کی خواہش شدت اختیار کر گئی۔۔1974 میں جب بھارت نے ایٹمی دھماکہ کیا تو ڈاکٹر عبد القدیر خان صاحب نے اپنے علم اور تجربے کو پاکستان کیلئے وقف کرنے کا حتمی فیصلہ کرلیا۔۔ ایف ڈی او سے منسلک ہونے کی وجہ سے آپ یورینیم افزود کرنے کے فن میں مہارت حاصل کرچکے تھے۔۔انہیں یقین تھا وہ اپنی اس صلاحیت کے ذریعے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں مدد دے سکتے ہیں۔

ڈاکٹر عبد القدیر خان اس سال دسمبر میں جب چھٹیاں گزارنے وطن واپس آئے تو اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے ملے،اور انکے ساتھ ایٹمی منصوبے پر گفتگو کی۔۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان کے مطابق وزیراعظم ذوالفقار بھٹو کی دلچسپی کے باعث پاکستان میں یورینیم افزودہ کرنے کے منصوبے پر اتفاق ہوگیا۔۔۔ اس موقع پر آپ نے وزیراعظم کو کہا کہ ” پاکستان کے وسائل انتہائی محدود ہیں جبکہ ہمارا پروجیکٹ بہت بڑا ہے” تو وزیراعظم نے کہا آپ کام شروع کریں فنڈ فراہم کرنا میرا مسلہ ہے۔

جنوری 1976 میں ڈاکٹر صاحب نے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن میں بطورِ ایڈوائزر کام کرنا شروع کردیا۔۔ ڈاکٹر صاحب پاکستان اٹامک انرجی کمیشن میں جو تنخواہ وصول کررہے تھے وہ ہالینڈ میں ملنے والی تنخواہ کے مقابل بہت کم تھی،لیکن وطن کی خدمت کے جذبے کے آگے تنخواہ کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔۔ جولائی 1976 میں راولپنڈی میں کہوٹہ نامی قصبے ایک منصوبے کی بنیاد رکھی گئی جو براہ راست وزارت دفاع کے ماتحت تھا۔۔ اس ادارے کا نام کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز رکھا گیا اس منصوبے کا مقصد دفاع اور اسکے مقاصد کیلئے یورینیم کی پر امن افزودگی کرنا تھا۔۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان صاحب نے کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز کا چارج سنبھالتے ہی جس جانفشانی،گن اور جذبے سے اس پرعمل درآمد شروع کیا وہ ہماری قومی تاریخ کا ایک درخشندہ باب ہے۔ پلانٹ کیلئے عمارت کا ڈیزائن اسکی تعمیر اور اس میں کام کرنے والے محنتی اور باصلاحیت افراد کا انتخاب بھی ایک کھٹن مرحلہ تھا۔ اصل پلانٹ کے ساتھ ایک چھوٹی سی لیبارٹری میں یورینیم کی افزودگی پر تجرباتی کام شروع کردیا گیا۔۔ 1977 میں جب حکومت تبدیل ہوئی تو لوگوں کا خیال تھا کہ اب کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز کا کام بند ہو جائے گا۔۔۔ مگر نئے سربراہ مملکت جنرل ضیاء الحق نے ڈاکٹر عبد القدیر خان صاحب کو مزید اختیارات اور سہولتیں دے دیں اور ڈاکٹر صاحب کی صلاحیتوں کے اعتراف کے طور پر کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز کو ڈاکٹر عبد القدیر ریسرچ لیبارٹریز کا نام دے دیا گیا۔۔ 1981 میں ایٹمی پلانٹ کی تنصیب کا کام مکمل ہوا اور 1982 میں یورینیم کی باقاعدہ افزودگی شروع ہوئی۔۔اس دوران ڈاکٹر عبد القدیر خان صاحب نے جن انتظامی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا وہ اپنی مثال آپ ہیں۔۔ آپ نے ثابت کردیا کہ وطن سے محبت کرنے والے لوگ کیا کچھ کرسکتے ہیں۔۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں بہت کم لاگت اور بہت کم عرصہ میں اتنی بڑی کامیابی حاصل کرنا ڈاکٹر عبد القدیر خان صاحب اور سنکے ساتھیوں کی شبانہ روز محنت کا نتیجہ تھا اور جب 28مئی1998ء کو پاکستان نے بھارت کے ایٹمی تجربات کے جواب میں چاغی کے مقام پر پانچ کامیاب ایٹمی دھماکے کیئے ملک بھر کے لوگ خوشی سے سجدہ شکر بجا لائے۔۔ ہندوستان کا غرور ڈاکٹر عبد القدیر خان صاحب کی محنتوں کی بدولت پاکستان نے خاک میں ملا دیا تھا۔۔پاکستان دنیا کی ساتویں اور اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت بن چکا تھا اور ہے ( الحمد اللہ) اور چاغی سمیت وطن کی فضائیں ڈاکٹرعبد القدیرزندہ باد اور نعرہ تکبیر اللہ اکبر کی صداؤں سے گونج اٹھی تھی.

ڈاکٹرعبد القدیر خان صاحب ہمارے محسن ہیں اور ہم اپنے اس محسن کو اپنی دعاؤں میں ہمیشہ یاد رکھیں گے۔۔اللہ تعالیٰ انکو صحتیابی والی خوشحالی والی لمبی زندگی عطا فرمائے آمین ثم آمین۔۔۔ انہیں ہماری دعاؤں کی جتنی ضرورت آج ہے پہلے کبھی نہ تھی آئیں سب ملکر ان کے لیئے دعا کریں،اللہ تعالیٰ انہیں اپنی امان میں رکھے اور انہیں ہر مصیبت سے بچائے. آمین ثم آمین

@MohhammadAhmad

Shares: