کورٹ کی سٹریٹجی آپ نے نہیں بنانی، ہمیں پتہ ہے کہ کیسے چلنا ہے،عدالت

0
108
islamabad highcourt

اسلام آباد ہائیکورٹ ،ایم پی او کیس،ڈپٹی کمشنر اسلام آباد اور ایس ایس پی جمیل ظفر کیخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی

ڈی سی اسلام آباد عرفان نواز میمن،ایس ایس پی آپریشنز عدالت کے روبرو پیش ہوئے،ڈی سی اسلام آباد کے وکیل رضوان عباسی عدالت پیش ہوئے،ایس ایس پی صدر فاروق بٹر کی جانب سے بشریٰ قمر ایڈوکیٹ عدالت پیش ہوئے، اسلام آباد کے تین تھانوں کا ریکارڈ عدالت میں پیش کردیا گیا،خاتون وکیل بشریٰ قمر نے کہا کہ کل کی سماعت کے آرڈر میں ہمارا موقف نہیں لکھا گیا ، جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آفیشل ریکارڈ ہے وہ ایسے نہیں مل سکتا ،

پراسیکیوٹر قیصر امام ایڈوکیٹ نے تھانہ مارگلہ کا ریکارڈ عدالت کے سامنے پڑھا

ایس پی سٹی کے وکیل کی جانب سے گزشتہ روز ریکارڈ کئے گئے بیانات پر اعتراض سامنے آیا، جسٹس بابر ستار نے کہا کہ کورٹ کی سٹریٹجی آپ نے نہیں بنانی، ہمیں پتہ ہے کہ کیسے چلنا ہے،یہ آفیشل ریکارڈ ہے، جنہوں نے توہین کی ہے انہی کا ریکارڈ ہے،

ڈی سی اور مجسٹریٹ اسلام آباد کے ریکارڈ کیپر نے بھی اپنا بیان ریکارڈ کرا دیا، عدالت نے کہا کہ آپ بیان حلفی کے ساتھ اپنا بیان جمع کروائیں ، اگر ایسا چلتا رہا تو بہت وقت لگ جائے گا،جو جو ایم پی او آرڈرز ہوئے ہیں انکی سرٹیفائیڈ کاپی ساتھ لگائیں، ڈی سی اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اسلام آباد کے ریکارڈ کیپر اختر علی کا بیان قلمبند کر لیا گیا، ریکارڈ کیپر نے کہا کہ دس مئی 2023 کو اسد عمر، فواد چوہدری، شاہ محمود، اعجاز احمد و دیگر کے نظر بندی کے احکامات تھے،عدالت نے کہا کہ اس طرح تو بہت ٹائم لگے گا، آپ بیان حلفی اور دستاویزات کی کاپیاں فراہم کریں، وکیل ایس پی صدر نے کہا کہ اگر ہم کسی پر جرح کرنا چاہیں گے تو وہ آرڈر میں لکھے، عدالت نے خاتون وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ریکارڈ کیپر پر آپ جرح نہیں کرسکتی، ڈی سی صاحب پر آپ جرح کرسکتی ہے،

کیس میں جیل یا جرمانہ بنتا ہے آپ نے ان سب پر عدالت کو مطمئن کرنا ہے،عدالت
ڈی سی اسلام آباد آفس کے ریکارڈ کیپر کو مئی سے ستمبر 2023 تک تمام نظر بندی کے آرڈرز عدالت جمع کرنے کا حکم دے دیا گیا، عدالت نے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ 342 کے لیے ہم پہلے سوالنامہ تیار کریں گے ؟ہم فریقین سے ڈائرکٹ جوابات مانگتے ہیں، کیس کو آگے لیکر جانے کے لیے کیا طریقہ کار آپ نے اختیار کرنا ہے وہ آپ سب پر ہے،سٹیٹ مشنری جو آئین کے تحت چلتی ہے انکا مقصد کیا ہے؟اس کیس میں جیل یا جرمانہ بنتا ہے آپ نے ان سب پر عدالت کو مطمئن کرنا ہے، انصاف ہونا چاہیے، مجھے اس چیز سے غرض ہے،آپ سب کے ہوتے ہوئے میں مطمئن ہو ں کہ میں بھی کوئی غلطی نہ کروں گا، عدالت نے کیس کی سماعت کی 14 فروری تک کے لئے ملتوی کردی

جسٹس بابر ستار نے کہا کہ یہ کریمنل ٹرائل نہیں ہے ،اس میں کوئی پرائیویٹ ڈاکیومنٹ نہیں ہے 

Leave a reply