‏ہمیں سزا قبول کرنے کی عادت ڈالنا پڑے گی:تحریر: عرفان محمود گوندل

0
75

گزشتہ کچھ دنوں سے اسلام آباد میں ویڈیو سکینڈل کے حوالے سے سوشل میڈیا پہ کافی گفتگو جاری ہے ۔
ابھی تک کی اپ ڈیٹس کے مطابق معاشرے کے بہت سے طبقات خفیہ طور پر اس گناہ پر مٹی ڈالنے اور مجرمین کو سزا سے بچانے کی سر توڑ کوشش کررہے ہیں ۔ ہر طرح کے جوڑ توڑ جاری ہیں ۔۔
معاشرے قوانین پر عمل کرنے سے پھلتے پھولتے ہیں ۔۔ نبی پاکؐ کی حدیث اور واقع موجود ہے کہ چوری کے مجرم کے لئے سفارش آگئی تو آپؐ نے فرمایا کہ اگر میری بیٹی فاطمہ بھی یہ جرم کرتی تو یہی سزا دیتا۔
سزا کسی بھی معاشرے میں جرائم کو روکنے کا راستہ ہوتا ہے ۔ لیکن ہمارے ہاں صورت حال اس کے الٹ ہوتی ہے ۔۔ ہم لوگ سزا سے بچانے کی کوشش شروع کردیتے ہیں ۔
پچھلے کچھ عرصے میں ملتان کا ایک ایسا ہی زنا کا واقعہ زیر بحث ہے۔
جس میں بیٹی نے باپ پر زنا کا الزام لگایا اور بعد میں مکر گئی ۔۔
اور کچھ دن پہلے کا ‎#مولوی_سکینڈل بھی آپ کے سامنے ہے ۔
میری ایک وکیل دوست سے بات ہوئی ۔ ان کا کہنا تھا کہ زنا اور تشدد کے کیس میں سوائے قصور والے کیس کے یا ایک دو اور کیسز میں کسی مجرم کو سزا نہیں ہوئی صلح ہوجاتی ہے ۔۔
میں نے اپنے علم کے مطابق پھر سوال کیا کہ زنا گناہِ کبیرہ ہے جس کی صلح کا کوئی تصور نہیں ہے یعنی سزا ہی ملنی ہے تو پھر صلح کیسے ہوتی ہے ؟
وکیل نے کہا جو فریق مجرم قرار دیا جائے وہ مدعی کو پیسے کا لالچ دے کر اس بات پہ آمادہ کرتا ہے کہ مدعی اپنے پہلے بیان سے مکر جائے اور عدالت میں یہ بیان دے کہ اندھیرے کی وجہ سے میں نے غلط بندے پہ الزام لگایا یہ وہ شخص یا عورت نہیں ہے ۔۔
جبکہ بیک ڈور چینل میں کچھ ” قوتیں ” صلح کی گواہ بن جاتی ہیں ۔ اس طرح ایک جرم پہ پردہ ڈال دیا جاتا ہے ۔۔
مدعی کو پیسے مل جاتے ہیں اور مجرم سزا سے بچ جاتا ہے ۔
مجرم کو شہہ ملتی ہے ۔ ایسے لوگ جو اس طرح کی نیت کررہے ہوتے ہیں وہ بھی حوصلہ پاتے ہیں اور اس طرح کے جرائم میں اس لئے شامل ہوجاتے ہیں کہ صلح کرنے کا راستہ موجود ہے ۔۔
اس طرح پورا معاشرہ آہستہ آہستہ گناہ کی دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے ۔۔
ہمارے پاکستان میں یہ روایت بن چکی ہے ۔۔ کہ جیسے ہی کسی سے جرم سرزد ہوتا ہے اس کے لواحقین دھوتیاں اور تھِگڑیاں سنبھال کے بڑے بڑے سیاسی ڈیروں کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں کہ کسی طرح جرم کی سزا نہ ہو ۔ ۔
ہمارا معاشرہ ہر صورت مجرم کو پناہ دینے کا عادی ہوچکا ہے ۔۔ اس کے پیچھے محرکات کیا ہوتے ہیں ان میں کچھ تو واضح ہیں
سرکاری افسر ہمیشہ اس طرح کی ” مرغی ” کو ذبحہ کرتے ہیں جو کسی جرم میں پھنس چکی ہو۔۔

ہم لوگ تو وہ ہیں کہ سڑک پہ چالان ہوجائے تو بجائے اپنا جرم تسلیم کرنے کے ہم کسی بڑے کو فون ملا کے سفارش کرواتے ہیں ۔
بعض دفعہ یوں لگتا ہے جیسے ہمارے معاشرے میں مجرم ہے ہی کوئی نہیں ۔۔ یہاں سارے فرشتے ہی رہتے ہیں یہاں کے سارے لوگ سچے ہیں ، یہاں کے سارے لوگ جو کچھ کہتے ہیں وہی درست ہوتا ہے یہاں تک قانون غلط ہوجاتا ہے ، شراب کی بوتل شہد کی بوتل میں تبدیل ہو جاتی ہے لیکن ہم اپنا جھوٹ تسلیم نہیں کرتے ۔۔
جب ایک معاشرہ ایسا ہوگا جس میں جرم ہوگا لیکن سزا نہیں ہوگی بلکہ مجرم جب جیل سے بھاری رشوت کے عوض جیل سے رہا ہوتا ہے تو اس پہ گل پاشی کی جاتی ہے اسے پھولوں کے ہاروں سے لاد دیا جاتا ہے وہ وکٹری کا نشان بنا کے بڑی گاڑی میں کھڑا ہو کے عوام سے داد وصول کرتا ہے اور ہمارے قانون کا مذاق اڑاتا ہے ، آیان علی جیسیاں ہمارے قانون کو انگلی دکھاتی ہیں۔ نواز شریف اور الطاف حسین جیسے قانون کی آنکھوں میں دھول جھونک کر باہر کے ملکوں میں بیٹھ کے عیاشی کرتے ہیں ۔۔
ہونا اسلام آباد ویڈیو سکینڈل میں بھی ایسے ہی ہے ۔۔ جیسا کہ وکلا کہہ رہے ہیں کہ انجام صلح ہی ہونی ہے ۔ صرف ریٹ کا مسلہ ہے
یہ صرف اسی کیس میں نہیں بلکہ ہر کیس کا حال ہے ۔۔۔ جو بھی جرم ہوتا ہے اس میں انجام کار صلح ہوتی یا مجرم کو بچانے کے لئے ہر طرح کے سیاسی سماجی اثرو رسوخ کو استعمال کیا جاتا ہے ۔
چلیں ہم بھی دیکھتے ہیں کہ کیا انجام ہوتا ہے ۔۔

Leave a reply