خیال ، حامدالمجید کا بلاگ

0
104

خیال تحریر حامدالمجید

اکثر ایسا ہوتا ہے ہم بہت کچھ لکھنا چاہ رہے ہوتے ہیں پر کچھ لکھا نہیں جاتا جیسے ہی پیڈ کھول کے ٹائپنگ کرنے لگتے ہیں انگلیاں رک جاتی ہیں اور سوچیں جم جاتی ہیں یا تو کوئی بے چینی ہوتی ہے یا ہمارے سر پہ یہ سوار ہوتا ہے ہم نے لکھنا ہے لکھنا ہے۔۔۔
جب کہ لکھنے کا صحیح وقت وہی ہے جب الفاظ خود بخود ذہن پہ اتریں ایسا تبھی ممکن ہے جب ہم ذہن سے دباؤ ہٹائیں اور بالکل ریلکس ہو جائیں۔۔
اک اور بھی طریقہ ہے جب کچھ لکھا نہ جا رہا ہو تو کچھ پڑھ لینا چاہیے اس کا فائدہ یہ ہے کہ ہم جب پڑھتے ہیں تو سوچ کو کئی نئی راہیں ملتی ہیں پڑھتے پڑھتے نئے خیالات ابھرنے لگتے ہیں جس کے بعد انہیں قرطاس پہ بکھیرنا آسان ہوجاتا ہے۔۔۔
الفاظ زبردستی نہ لکھیں بلکہ ان کی مرضی سے لکھیں۔۔۔
جب الفاظ قلم کی نوک سے مچلتے ہوئے قرطاس پہ اترنا شروع ہوتے ہیں تو ہماری انگلیوں کے نرم و نازک پورے بھی اتنی ہی تیزی سے حرکت کرنے لگتے ہیں ایسے میں لفظوں میں کچھ الفاظ زائد یا کم رہ جاتے ہیں۔۔ جنہیں بعد میں باآسانی دور کیا جاسکتا ہے اگر ہم تحریر لکھنے کے بعد فوراً سے اپلوڈ کردیں تو تسلسل و روانی سے لکھے گئے لفظوں کی قطار میں کچھ ادھر اُدھر ہونے کی وجہ سے قاری کا تسلسل ٹوٹ جاتا ہے۔۔
تحریر میں نکھار پیدا کرنے کے لیے اسے دوسروں تک پہنچانے سے پہلے خود ایک یا دو دفعہ ایک قاری کی نظر سے پڑھیں۔۔۔۔
ہمارا ہر وہ لفظ امر ہوجاتا ہے جو زہن سے اتر کہ قرطاس پہ آتا ہے اور دوسروں کی بصارتوں سے ہوتے ہوئے زبان پہ جاری ہوتا ہے ہمیشہ ایسا لکھیں جو فرحت قلب بنے نہ کہ اذیت قلب۔۔
خوش رہیں خوشیاں بانٹیں۔۔

حامدالمجید

Leave a reply