ہماری مائیں بہنیں بازی جیت گئیں حافظ سعد رضوی کا خطاب میں خراج تحسین

تحریک لبیک کے سربراہ علامہ خادم حسین رضوی کے پہلے عرس کی تقریبات کا سلسلہ آج تیسرے روز بھی جا ری ہے-

تحریک لبیک کے سربراہ علامہ خادم حسین رضوی کے پہلے سالانہ عرس کی تین روزہ تقریبات کا آج آخری روز ہے تقریب کے پہلے روز علامہ خادم حسین رضوی کی قبر پر قرآن خوانی کی گئی،جبکہ گزشتہ روز بھی عرس کی تقریب سے مختلف علماء کرام نے خطاب کیا دوسری نشست گزشتہ روز نماز عشاء کے بعد سے رات 11 بجے تک جا ری رہی تیسرے روز کی تقریب سے علامہ سعد رضوی کا خصوصی خطاب ہوا عرس کی تقریب میں ہزاروں کارکنان شریک ہیں ۔ یتیم خانہ چوک میں قائدین کے لیے مین سٹیج لگایا گیا ہے ۔ اس موقع پر سیکورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے ہیں ۔ میڈیا کے لیے الگ سٹیج بنایا گیا ہے۔ شرکا کی جامہ تلاشی کے بعد تقریب میں داخلے کی اجازت دی جا رہی ہے۔

صاحبزادہ انس رضوی بھی عرس کی تقریب میں شریک ہیں ۔ تحریک لبیک کی مرکزی شوری کے اراکین کے بھی مختصر خطابات ہوئے ۔ تحریک لبیک کے کارکنان میں جوش و جذبہ پایا جاتا ہے ۔حافظ سعد رضوی اپنے خطاب میں اگلے لائحہ عمل کا اعلان کیا ان کی عرس کی تقریب سے ایک روز قبل رہائی ہوئی ۔ رہائی کے بعد تحریک انصاف کے سینیٹر اعجاز چودھری نے بھی ان سے ملاقات کی اور رہائی پر مبارکباد دی ۔

گزشتہ شب سینئر صحافی و اینکر پرسن مبشر لقمان اور یا مقبول جان نے بھی حافظ سعد رضوی سے ملاقات کی۔ خادم حسین رضوی کے سالانہ عرس کے موقع پر ٹریفک کو متبادل روٹ دیا گیا ہے اس ضمن میں سی ٹی او لاہور نے متبادل روٹ کا اعلان کیا ہے۔ عرس کے شرکاء کو رات کے کھانے میں مچھلی اور بریانی دی گئی جبکہ کشمیری چائے سے بھی مہمانوں کی تواضع کی جا رہی ہے۔

آج تقریب میں حافظ سعد رضوی نے خطاب کیا جب سعد رضوی اسٹیج پر خطاب کے لئے آئے تو فضا لبیک یا رسول اللہ کی صدا سے گونج اٹھی سعد رضوی نے حمدو ثنا اور درود پاک سے آغاز کے بعد عرس کی تقریبات میں آنے والوں کو خوش آمدید کہا اور دھرنے میں تکالیف برداشت کرنے والوں کو عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے زمانہ بھی نیا پیدا کر دیا ہے صبح بھی نئی ہو رہی ہے شام بھی نئی ہو رہی ہے صبح جو کالعدم ہو رہے ہیں شام کو غیر کالعدم ہو رہے ہیں صبح کو زخم کھا رہے ہیں شام کو شہادتیں دے رہے ہیں-

یہ ہے نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر یہ ہے نیا زمانہ جس کو اقبال نے کہا تھا اور پھر ہمارے قائد نے بتایا تھا کہ وہ نیا زمانہ نئے صبح و شام کیا ہیں تیرے چاہنے والوں نے پیدا کر دیئے ہیں ایک مرتبہ سر اٹھا کر دیکھ تو سہی تیرے مناننے والوں نے نیا زمانہ پیدا کیا ہے کہ نہیں کی اور فقط میرے آج بات کرنے کا مقصد میں آج دو جگہ خراج تحسین پیش کرنے آیا ہوں اور وہ دونوں ایسی جگہ ہیں جس سے زیادہ کوئی حقدار نہیں ہے جسے خراج تحسین پیش کیا جائے-

ایک تو ہمارا قائد ہے جس نے ہمیں یہ راستہ دکھایا اور پھر چل کر دکھایاکہ تم نے چلنا بھی ایسے ہے اٹھنا بھی ایسے ہے بیٹھنا اور بات بھی ایسے کرنی ہے جب ظالم آ جائے تو اس کی آنکھ میں آنکھ کیسے ڈالنی ہے اور جب وہ سامنے آ جائیں تو ان سے کیسے بات کرنی ہے-

دوسری وہ ہماری مائیں اور بہنیں جنہوں نے اپنے بچوں کو چلتی ہوئی گولیوں میں خود تیار کر کے بھیجا ہے جنہوں نے ان حالات میں جب بھائی بھائی کا ساتھ چھوڑ جاتا ہے جب اولاد ماں باپ کو چھوڑ جاتی ہے جب اتنے مشکل حالات میں کوئی رشتہ قائم نہیں رہتا ان حالات میں بھی اپنے شوہروں ،بچوں بیٹوں اور بھائیوں کو تیار کر کے بھیجا ہے کہ جاؤ آج حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کو تمہارے خون کی ضرورت پڑ گئی ہے اور آج تمہارے کون کی ضرورت پی ہے تو یہ یاد رکھنا جہاں پانی کی ضرورت ہو گی وہاں خون بہا کے آنا کوئی یہ نا کہے کہ اسلام کی مائیں بانجھ ہو چکی ہیں کوئی کفر یہ نا سمجھے کہ ماؤں نے صلاح الدین ایوبی اور محمد بن قاسم پیدا کرنے چھوڑ دیئے ہیں کوئی یہ کہے طارق بن زیاد کے غلام آنے ختم ہو گئے ہیں جا کر یہ پیغام دے دو پورے عالم کفر کو کہ امت مسلمہ کی مائیں بانجھ نہیں ہوئیں انہوں آج بھی وہ شیر اپنی کچھاروں میں پال رکھے ہیں کہ جو ہر ستم کے سامنے کھڑے ہو کر کہتے ہیں کہ” مر جائیں گے ظالم کی حمایت نہ کریں گے ، احرار کبھی ترک نہ روایت کریں گے” وہ روایت کیا تھی جب عامر بن فہیرہ کو غزوہ احد میں تیر لگا تو تیر مارنے والے نے دیکھا کہ تیر کھانے والا کہہ رہا ہے خدا کی قسم میں بازی جیت گیا اس نے کہا مرنے والا بھی بازی جیتتا ہے؟ انہوں نے کہا ایسے سمجھ نہیں آنی آؤ کلمہ پڑھو جو ہمیں کہتے ہیں جناب یہ کیا ہوا ہم نے کہا ہم زندہ ہیں تب بھی بازی جیت گئے ہمارے شہید بھی بازی جیت گئے ہمارے زخمی بھی بازی جیت گئے ہماری مائیں بازی جیت گئیں ہماری بہنیں بازی جیت گئیں-

جن ظالموں نے انہیں اتنا ستایا کہ وہ گھی اور ٹماٹر جیسی چیزوں کو احتیاط سے استعمال کرتی ہیں ہر چیز احتیاط سے استعمال کرتی ہیں لیکن جب حضور کا نام آیا تو انہون نے پانا خون بھی احتیاط سے نہیں رکھا اپنی جان بھی احتیاط سے نہیں رکھی ان کو پتہ تھا ہمارے حضور کی عزت و نامو س صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے قیمتی ہےاس سے زیادہ کوئی قیمتی نہیں اپنی قیمتی چیزیں انہوں نے روڈ پر لا کر رکھ دیں انہو‌ں نے کہا میں نے ان ماؤں سے ملنا بھی ہے جنہوں نے کہا تھا زندہ واپس نہ آنا دین پر پہرہ دے کر آنا میں صرف ان ماؤں اور بہنوں کو خراج تحسین پیش کرنے آیا ہوں جن کے دل ہمارے لئے دھڑکتے ہیں جن کی دعائیں ہمارے لئے ہیں خدا کی قسم شہید بھی آپ کی وجہ سے ہیں کیونکہ آپ نے تیار کر کے بھیجا ہے ہماری آب و تاب بھی آپ کی وجہ سے ہے کیونکہ آپ کو پتہ ہے ہم نے اپنے آقا مولا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وفا کرنی ہے انہیں خراج تحسین پیش کرنے آیا ہوں سب سے پہلے تو ماں خراج تحسین کی حقدار ہے جنہوں نے علامہ خادم حسین رضوی کو جنم دیا-

میں حیران ہوں جس میں ظالموں نے اس قوم سے صاف پانی چھین لیا لیکن ان کی ماؤں نے پوری دنیا کو یہ جوب دیا ہے تم صاف پانی چھین سکتے ہو لیکن ہمیں صادف خون دینے پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام پر روک نہیں سکتے تم ہمارے نوالے چھین سکتے ہو تم ہمارے چولہے ٹھنڈے کر سکتے ہو جو تم سے بن پڑئ کر لو لیکن ہم اپنے آقا مولاصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام پر کوئی بھی قربانی دینے سے گریز نہیں کریں گے باخدا یہ سب ان کا ہے جو کچھ لگا پرا ہے بانہیں کا یہے اور وہ ماؤں کے بچے جو جیلوں میں پہنچے ان کو خراج تحسین پیش کرنے آیا ہوں-

علامہ حافظ سعد حسین رضوی نے کہا کہ "امت مسلمہ نے ہم پر اعتماد کیا کہ ہم ناموس رسالت و ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تحفظ کریں گے آپ کے اعتماد میں کوٸی کمی آٸی ؟اب ہم آپ پر اعتماد کرتے ہیں کوٸی ڈبا خالی نہیں رہے کاغذوں کا وزن اتنا ہوکہ ان کے کندھے بوجھ اٹھا نہ سکے-

انہوں نے حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا اور آپ یہ کہتے تھے پتہ نہیں کیا کر لیں گے بس اتنی سی بات تھی اُدھر گئے رات تھی ادھر آئے صبح ہے جنہوں نے اس مشن کیلئے جتنی بھی سعی کی ہے انکو میرا دونوں ہاتھوں سے سلام ہے-

Comments are closed.