ہمسائیگی کے حقوق اور آداب__!!!
(تحریر:جویریہ بتول)
اچھی ہمسائیگی بہت بڑی نعمت ہے۔۔۔
اور برے ہمسائے سے ہمیں پناہ مانگنے کی تعلیم ملی۔۔۔
کسی کا بھی ہمسایہ اس کی خوشی،غمی میں ڈھارس کا ضامن ہوتا ہے،کیونکہ سگے رشتہ دار میلوں،شہروں بلکہ بعض اوقات ملکوں دور بھی ہوتے ہیں__!!!!
یہی وجہ ہے کہ ہمسائے کی اسی افادیت اور اہمیت کے پیشِ نظر دینِ فطرت اسلام میں پڑوسی کے حقوق پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے،ارشاد ربانی ہے:
وَالجَارِذِی القربٰی وَالجارِ الجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالجَنبِ۔۔۔۔
(النسآء:36)۔
"اور پڑوسی رشتہ دار اور اجنبی ہمسائے اور پہلو کے ساتھی سے(احسان کا معاملہ کرو)۔۔۔”

یعنی اللّٰہ رب العزت خود مسلمانوں کو پڑوسی سے حسنِ سلوک کا حکم دے رہے ہیں تو کیا اللّٰہ کے حکم کے بعد پڑوسی کا حق کچھ پوشیدہ رہ جاتا ہے۔۔۔؟

رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے احادیث مبارکہ میں بہت سے مقامات پر ہمسائے کے حقوق کی اہمیت بتلائی۔۔۔
کچھ وقت پہلے تک واقعی پڑوس کی افادیت قائم تھی،
خوشی،غمی کے مواقع مل کر ڈیل کیئے جاتے تھے۔
جو کچھ میسر ہوتا،کھلے دل سےپیش کر دیا جاتا تھا۔
دیہات میں تو یہ رواج زیادہ ہی مضبوط تھا۔
کھلے گھر اور حویلیاں شادی بیاہ کے مواقع پر بہت کام دیتے تھے۔۔۔
مگر آہستہ آہستہ کھلے گھروں کے مکینوں کے دل بھی تنگ ہونے لگے اور دیہاتیوں نے بھی چار و ناچار میرج ہالز کا رُخ کر لیا اور یوں چند لاکھ کے اخراجات بھاری بھرکم بکنگ کے ساتھ کئی گنا زیادہ اضافے کے ساتھ برداشت کیئے جاتے ہیں۔۔۔ !!!
اور یہ سب حسنِ معاشرت کی نفی اور نفسا نفسی کے عالم والی بات ہے۔۔۔ !!!!
پڑوسی کے ساتھ حسنِ سلوک کا حق یہ ہے کہ اس کے دکھ سکھ میں شریک ہوا جائے۔۔۔
اس کا حال بانٹا جائے__
اس کی ضروریات کا خیال رکھا جائے۔۔۔
اس کے گھر جو کچھ پکے،بخوشی اور حق سمجھ کر بھیجا جائے__!!!!
آج ہم دن میں کئی کئی ڈشز بناتے ہیں مگر پڑوس میں بسنے والے کا کچھ خیال نہیں آتا۔۔۔
اب یہ ضروری نہیں ہوتا کہ آپ کا پڑوسی واقعی مستحق ہونا چاہیئے بلکہ یہ اس کا خصوصی حق ہے جو ہمارا دین اُسے دیتا ہے۔۔۔ !!!!
اور کسی بھی سوسائٹی کے احساس اور مثبت پہلو کی خوب عکاسی بھی۔
ابو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اے مسلمان عورتو!!!!
کوئی پڑوسن اپنی کسی پڑوسن کے لیئے کسی چیز کو حقیر نہ سمجھے،خواہ بکری کا پایہ ہی کیوں نہ ہو۔۔۔”
(صحیح بخاری_کتاب الادب)۔
کوکنگ کا زیادہ تر کام عورتیں ہی کرتی ہیں تو انہی کی یہ ذمہ داری بھی بنتی ہے کہ وہ اپنی پڑوسن کا خیال رکھنے میں کوتاہی نہ کریں۔۔۔
بلکہ ثواب کی نیت سے،پڑوسی کا بھی حق ادا کریں۔۔۔ !!!!

رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"وہ شخص مومن نہیں جو خود تو پیٹ بھر کر کھانا کھائے،اور اس کا ہمسایہ بھوکا ہو۔۔۔”
{رواہ البخاری فی الادب المفرد}۔

حضرت عائشہ راویہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
حضرت جبرئیل علیہ السلام مجھے اس طرح بار بار پڑوسی کے حق میں وصیت کرتے رہے کہ مجھے خیال گزرا کہ شاید اسے وراثت میں شریک نہ کر دیں۔”
[صحیح بخاری_کتاب الادب]۔

حضرت عائشہ رضی اللّٰہُ عنھا کے پوچھنے پر کہ کسے پہلے ہدیہ بھیجوں،آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جس کا دروازہ تم سے قریب ہے__!!!”

خود بھی پڑوسیوں کے ساتھ اچھے معاملات رکھیں اور اپنے بچوں کی تربیت بھی اسی نہج پر کریں کہ وہ اپنے پڑوسی کے لیئے کسی اذیت کا باعث نہ بنیں۔

چھوٹے بچوں کے معمولی اور معصوم جھگڑوں کو طول نہ دیں اور طرفین کو پیار سے سمجھائیں۔۔۔
کیونکہ بچے فوراً دل صاف کر کے اکھٹا کھیلنا کودنا چاہتے ہیں۔۔۔

چھوٹے چھوٹے مسائل پر پڑوسی سے جھگڑنے سے گریز کریں۔۔۔
کبھی اس کے حصے کا کام خود کر دیں۔۔۔
جیسے صفائی کا مسئلہ ہو یا پودوں وغیرہ کو پانی دینا۔۔۔۔
پڑوسی کی عدم موجودگی میں اس کے گھر کی حفاظت کریں اور اسے کسی نقصان کی پہنچ سے دور رکھنے کا خیال کریں۔
بچوں کو سمجھائیں کہ پڑوسیوں کی کسی بھی چیز کو نقصان نہیں پہنچانا یا اٹھا کر گھر نہیں لے آنا۔۔۔

پڑوسی کے حق میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ٹیرس پر گھومتے ہوئے تاکاجھانکی سے بچا جائے۔۔۔
بلاوجہ بار بار چھتوں پر نہ چڑھا جائے۔۔۔
اگر ضرورت ہی ہو تو پہلے سے پڑوسی کو اطلاع کی جائے تاکہ خواتینِ خانہ اپنا خیال کر لیں__
رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
"وہ شخص جنت میں نہ جائے گا،جس کا ہمسایہ اس کے مکر و فریب سے محفوظ نہ ہو۔”
{صحیح مسلم)
شہروں میں مختلف النوع لوگوں کا ساتھ رہتا ہے۔۔۔
اور زیادہ تر لوگوں کو سالوں تک یہ پتہ ہی نہیں ہوتا کہ ان کے پڑوس میں کون بس رہا ہے۔۔۔
لیکن اس پڑوسی کا حق بھی ادا کرنا چاہیئے ،ہاں اگر کوئی شناسائی یا بول چال رکھنا ہی نہ چاہے تو زبردستی بھی جائز نہیں ہے۔۔۔
لیکن ہر پڑوسی پر اندھا اعتماد بھی نہیں کر لینا چاہیئے۔۔۔
بچوں کو ماموں،چاچو اور بھائی بنا کر ساتھ کبھی نہیں بھیجنا چاہیئے__
اسی طرح عورتیں،پڑوس کے مردوں اور مرد،پڑوس کی عورتوں سے بے تکلفی سے گریز کریں۔۔۔
کیونکہ یہ کھلم کھلا بات چیت بعض اوقات خطرناک افیئرز پر منتج ہوتی ہے__!!!!
محرم،غیر محرم کے لیئے ہر میدان اور معاملہ میں کلیہ ایک ہی ہے۔۔۔

گھر کی چیزیں زور زور سے پھنکنے اور گھسیٹنے سے اجتناب کرنا چاہیئے،کیونکہ پڑوس میں کوئی بزرگ یا بیمار ہماری اس حرکت سے تکلیف محسوس یا پریشان ہو سکتا ہے۔۔۔

اونچی آواز میں ڈیک چلانے اور فُل آواز میں ٹیلی ویژن آن رکھنے سے بھی گریز کرنا چاہیئے۔۔۔

چیخنے چلانے اور بچوں کو اونچی آواز میں ڈانٹ پلانا آپ کے پڑوسی کو ڈسٹرب اور ذہن کو منقسم کر سکتا ہے__!!!!

اسی طرح پڑوس میں چلنے والے کسی مسئلہ یا جھگڑے کی تشہیر کی بجائے خاموشی سے صلح کی کوشش کرنی چاہئیے اور پھر اسے راز میں بھی رکھیں۔۔۔ !!!
بیمار کی عیادت کریں__دوا کھِلا آئیں،کوئی اس کے پاس نہ ہو تو کچھ دیر دلجوئی کے لیئے اس کے پاس چلے جائیں۔۔۔
پڑوسی اگر بے راہرو،بے نمازی اور غلط راہوں پر ہے تو اخلاص کے ساتھ نرمی سے نصیحت بھی کرتے رہیں۔۔۔ !!!
غرض ان حقوق و آداب کا خیال رکھتے ہوئے ہم سب ایک بہتر پڑوسی کا حق ادا کر سکتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"پڑوسیوں میں بہتر پڑوسی وہ ہے،جو اپنے پڑوسی کے حق میں بہتر ہو۔”(رواہ الترمذی)۔
اللّٰہ تعالٰی ہمارے احوال کی اصلاح فرما دے ،آمین ثم آمین۔

Shares: