ہماری ڈرامہ انڈسٹری کا دن بہ دن گرتا معیار.تحریر: امان الرحمٰن

کہتے ہیں کہ کسی بھی قوم کواگر زوال پزیر کرنا ہوسب سے پہلے اُس کی تہذیب اُس کا کلچر اُس قوم سے چھین لو پھر وہ قوم کبھی بھی ترقی نہیں کر پائے گی، مگر ہمارا معاملہ ذرا کچھ اور ہی ہے یہاں ہم صرف ایک قوم نہیں ہم ایک اسلامی نظریہ پر وجود میں آنے والے اسلامی ریاست میں رہنے والے مسلمان ہیں اور ہمارا رہن سہن اور کلچر اسلامی اصولوں پر قائم ہے ۔۔۔۔ میرا مطلب تھا ،معزرت میں نے یہاں تھا کا لفظ استعمال کر لیا کیونکہ مجھے لگتا ہے کے ہم اپنے اصل سے ہٹ گئے ہیں کیوں کے ہم ناچاہتے ہُوئے بھی اپنی اصل روایات اور اپنی تہذیب خُود ہی چھوڑتے چلے جا رہے ہیں وہ بھی غیر ارادی طور پر ، اِس جدید دور میں جنگیں اب جنگ کے میدان میں نہیں لڑی جاتیں ۔۔۔ اب آپ حیران ہوں گے کہ اِس تحریر کا عنوان تو ڈرامہ انڈسٹری تھا ، خیر یہ بات ہم کسی صُورت اور کبھی بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوں گے کے ہم یہ کیسی جنگ میں ہیں ہر دوسرے تیسرے دن بات گُھوم پھر کر یہی کی جاتی ہے کے ہم حالتِ جنگ میں ہیں کیوں کے ہم ذہنی طور پر مفلوج ہو گئے ہیں ہمیں عام زندگی میں طرح طرح کہ معاملات میں اُلجھایا گیا ہے دُشمن تب ہی جان گیا تھا جب یہ دنیا کا واحد ملک جو نظریئے کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا اُس وقت اِس زندہ قوم نے کیسی کیسی قُربانیاں دیں تھیں اور یہ قوم کیا کر سکتی ہے تو لہٰذا مان لیں کے 1948 کی جنگ جب اِس ملک کو بنے ابھی ایک سال بھی نہ ہوا تھا تو کیسے ایک ایسی ریاست کوتسلیم کرلیا جاتا جو اسلامی نظریئے کے ساتھ بنی اور تب اِس قوم کو تقسیم کرنے کا عمل شُروع ہو گیا تھا پھر ٹی وی عام کیا گیا ساتھ ساتھ اِس قوم کو دنیا کی تفریحات کی دوڑ میں لگا دیا، پھر ڈرامہ آگیا جب یہی پاکستانی قوم بمشکل عشاء کی نماز پڑھا کرتی تھی کہ نیند کا غلبا ہوتا تھاوہ 6بجے اور پھر 7 بجے والا ڈرامہ 8 بجے دیکھے بنا سوتی نہیں تھی اُس کے بعد خبر نامہ بھی دیکھنا ضروری تھا اور دنیا ،کی پاکستانی حالات سے بھی بے خبر نہیں رہا جاتا تھا ہم سے پھر ہماری نیند ہم سے آہستہ آہستہ رُوٹھتی چلی گئی ۔۔۔۔ ارے ہاں پھر ہفتے میں ایک اُردو فیچر فلم دیکھنے کو بھی ہمیں ٹی وی پر ہی سہُولت دی گئی اور ہم بہت خُوش ہوے کے ارے واہ ۔۔۔۔کمال ہو گیا اب تو سینما بھی جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی اور وہ قوم جو جب گھر کے مرد جب ٹی وی پر کچھ دیکھتے تو عورتیں ساتھ نہیں بیٹھا کرتی تھیں یا پروگرام کی مناسبت سے شریک ہوا کرتی تھیں پھر پروگرام کا طریقہ بدلنے لگا ہنسی مزاق سے بات چھیڑ چھاڑ تک پہنچی پھر ایک آدھا گانا ساتھ دل میں دھک دھک کرنے لگا پھر شیطان نے بھی دل میں آنے جانے کی وجہ بنا لی اور پھریہ جھجک بھی رفع دفع ہو گئی اور بے حیائی کا یہ چھُپا وار پہلے مزے دینے لگا اور بعد میں جان کا عذاب بن گیا اور آج ہم کہاں کھڑے ہیں ۔۔۔!!’

نوٹ: اب آجائیں ہم پر تہذیبی یلغار کی شُروعات کیسے ہوئیں اور ہمیں معلوم ہونے کے باوجود ہم وہی کرتے بھی رہے جو ہمیں نہیں کرنا تھا کیوں کے یہ زہر تھا اور دُشمن یہ زہر ہمارے حلق میں آہستہ آہستہ اُتارتا جا رہا تھا ۔۔۔
اچھا جی۔۔۔ پھر یہ کھیل تو چل ہی رہا ہوتا ہے ساتھ ساتھ سیاسی محاذگرم ہوتا ہے اور ریڈیو اور ٹی وی پر اِنہی سیاسی قومی لسانی خبروں کا تڑکا بھی ساتھ ساتھ چلتا ہے دُوسری طرف اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سرکاری ٹی وی کی نیوزکاسٹر سر پر دوپٹہ لئے خبریں دیا کرتی تھی اُس کا دوپٹہ سرکنا شُروع ہُوا ساتھ اِس ریاست جس کی قومی زبان "اُردو” تھی یہاں انگلش چینل بھی آگیا چلیں اچھی بات ہے عالمی دنیا میں ہم اپنا پیغام اچھی طرح پہنچائیں گے۔۔۔ جی چلیں ٹھیک ہے ۔پھر پرائیویٹ چینلز آئے اور مُقابلہ شُروع ہو گیا کے ہماری نیوز کاسٹر زیادہ ماڈرن ہے اُس نے دوپٹہ سر کے ماتھے تک آتا دوپٹہ سر کی بیک سائڈ پر پِن سے اٹکانا شُروع کیا تو دُوسرے پرائیویٹ چینل نے دوپٹہ سر سے اُتار کر گلے کا پٹہ بنادیا ۔۔۔ میرا مطلب گردن میں دوپٹہ ڈال لیا ۔۔۔ٹھیک ہو گیا اب آجائیں ایڈوانس ڈرامہ کی طرف جو کیبل نیٹ ورک کہ ذریئے سے دھڑا دھڑ ٹی وی چینلز کے لائسنس حاصل کرتے گئے اور انٹرٹینمنٹ کا نعرہ لگاتے کُود پڑے اِس قوم کو ماڈرن قوم بنانے کے لئے اور قوم بیچاری کیا کرتی اُسے نہ اسکولوں میں اپنی بنیاد بتائی گئی نہ ہی کلچر بتایا نہ ٹھیک سے دین سکھایا وہ حربے بھی ساتھ ساتھ چل رہے تھے مگر وہ ہمارے مختلف اِداروں کے ذمہ تھے اور اُن اُن اِداروں کے ساتھ بھی تو یہی الیکٹرونک میڈیا جُوڑا تھا ناں۔۔۔۔ سمجھیں بات کو کہ جس جس اِدارے کا افسر اپنی ڈیوٹی کر کے جب گھر آتا اور دن بھر کی تھکن مٹانے اپنی دن بھر کی توں توں میں میں کو ریلیکس کرنے کے لئے تفریح اُسے بھی تو چاہئے تھی ناں۔۔۔ وہ بیچارہ بھی تو یہ زہر پیتا ناں تو کیا کرتا کم بخت عادت جو پڑ گئی تھی ۔۔۔۔ وہی بچپن میں عشاء کے وقت سوتا تھا پھر جاگنے لگا اپنا آرام چھوڑا تھا تو طبیعت تو اِس افسر کی بھی بدلنا تھی ناں۔۔۔ زہر جو اندر باہر سے اثر کر رہا تھا ۔۔۔

اچھا تو کہاں تھے ہم۔۔۔ جی ہم تھے پرائیویٹ چینلز کے لائسنس ، تو جی اب ساتھ آگیا نیا مقابلہ اور مقابلہ اپنوں کے ساتھ ساتھ پڑوسیوں سے بھی کیا جانے لگا اور پھر جب مقابلہ ہو ساتھ پیسہ ہو ساتھ ایکسٹرا فنڈنگ ہو تو کس سرمایہ دار کی "رال” نہ ٹپکتی بھئی۔۔۔ پھر تو جو ہُوا اللہ کی پناہ کے ڈرامہ ایسا کے اِس قوم کو نہ اپنے مذہب کا ہوش رہا نہ تہذیب کا اور نہ ہی کلچر کا ہر کوئی کسی نہ کسی ڈرامے کا کردار خُود کو سمجھنے لگا کیوں کہ وہ بھی اپنی زندگی میں ایسا ہوتا دیکھتا تھا کیونکہ ہر کسی کو "اُسی” ہلکے زہر نے اپنے پورے کنٹرول میں لینا جاری رکھا ہُوا تھا اور ہر کوئی اپنی تلاش میں ڈرامے دیکھ رہا تھا پھر ڈرامہ فلم کو پیچھے چھوڑ گیا اور وہی ہمارا پڑوسی جس سے ہم مقابلہ کرنے چلے تھے وہ ہم سے شرمانے لگا اور وہ ڈرامہ چھوڑ کر اپنی فلم کی طرف ہی چل دیا مگر ہم کہاں رکنے والے تھے ہم نے این جی اوز اور دنیا کے ایسے اُن اداروں کا سہارا لیا جو سپورٹر تھے اور جو وہی "زہر” یہاں سپلائی کرنے والے تھے وہ ایک بار پھر سے سپلائیر اور ہمدرد ایک ساتھ بن گئے اور ہم اپنا نظریہ کھو بیٹھے ۔۔۔۔ مگر ابھی بھی کچھ لوگ ہیں کچھ اِدارے ہیں کچھ افسران ہیں جو اپنے اُن لوگوں کو نہیں بھولتے جو اِس ریاست کی بنیادوں میں اپنا لہو ڈال کر مضبوط بنا گئے ہیں کے لاکھ دشمنوں کی کوشش کے اِس ملک کی بنیادیں کوئی نہیں ہلا سکتا کیوں کے یہ ملک "پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ” کے نعرے سے وجود میں آیا ہے اِس ملک پاکستان کو ہم نے اُنہی شہداء کی نسلوں نے سنبھالنا ہے مگر کیسے کیا ہم اپنی شناخت بھول کر گنوا کر کبھی منزل کو حاصل کر پائیں گے۔۔؟ ہرگزنہیں، دیکھیں چائینہ کو جو ہمارے بعد آزاد ہُوا اُس قوم نے اپنی روایات اپنی زبان اپنا کلچر نہیں چھوڑا اور آج وہ دنیا کا سُپر پاور بن گیا ہے صرف علان کرنا باقی ہے اور وجہ ہے اُس کی اپنی اصل بنیاد چینی قوم اپنی اوقات نہیں بُھولی اور ترقی کی منزلیں عبورکرتی چلی جا رہی ہے۔
دیکھیں جاپان کو جو ایک خوفناک جنگ کے بعد دو ایٹم بم کھانے کے بعد بھی ایک قوم بن کر اپنے پیروں پر کھڑا ہے ، کیوں۔۔؟ کیونکہ جاپانی بچے ایک بار دیکھے گئے کارٹون دوبارہ لگ جائیں تو اُس چینل پر کیس کر دیتے ہیں اور ہمارے یہاں 8 بجے والا ڈرامہ رات 2 بجے نشرِمقرر لگتا ہے پھر وہی ڈرامہ اگلے دن دوپہر کو لگتا ہے ارے کتنا فضول وقت ہے ہماری اِس قوم کے پاس ۔۔۔؟ کچھ اندازہ بھی ہے ہم کہاں جا رہے ہیں۔۔؟
آخر میں ایک بات کہانا چاہتا ہوں اگر آج پاکستانی قوم اپنانظریہ زندہ کردیں جو 1947 میں تھا جس کی بناء پر یہ ریاست اِس زمین پر وجود میں آئی یقین کیجئے اللہ ہماری رہنمائی فرمائے گا ہمارے ہر معاملے کا حل نکل آئے گا اِن شاء اللہ۔
پاکستان زندہ باد
@A2Khiza

Comments are closed.