حقوقِ نسواں تحریر: تحریر عبید الله

0
68

کسی بھی موضوع پر گفتگو سے پہلے اس کی بنیاد جاننا لازمی ہے۔
حقوق سے مراد وہ بنیادی معاشی، معاشرتی، اخلاقی، دینی اور حکومتی و قانونی
اصول ہیں جن کے میسر ہو نے سے کوئی بھی فردِ واحد معاشرے کی ترقی اور خوشحالی میں اپنا کردار بھرپور انداز میں ادا کرسکتا ہے۔ حقوق نسواں سے مراد وہ تمام حقوق ہیں جو کہ اسلام اور عصرِ حاضر کے جدید تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے آئین پاکستان میں درج ہیں۔ کسی بھی معاشرے کو بنانے اور خوشحالی کے راستے پر گامزن ہونے کےلیے مرد اور عورت دونوں کی برابر کی کاوشیں لازم ہیں۔ اگر معاشرے کو ہم ایک موٹر سائیکل سے تشبیہ دیں تو مرد اور عورت اس کے دو پہیے ہیں اگر ان میں سے ایک پہیہ میں خرابی آئے تو دوسرا بھی اس سے متاثر ہوتا ہے اور نتیجتاً موٹر سائیکل منزل تک پہنچنے سے پہلے راستے میں ہی رک جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح اگر مرد اور عورت دونوں اپنا کام خوش اسلوبی سے انجام نہ دے سکیں تو معاشرے ترقی اور خوشحالی کی بجائے انتشار اور بے راہ روی کی جانب گامزن ہو جاتے ہیں اس لیے دونوں کے حقوق اور کردار سے انکار ممکن نہیں۔
عورتوں کے حقوق سےانکار ممکن نہیں کیونکہ عورت کے حقوق اور اکرام تو اللہ تعالیٰ نے چودہ سو سال پہلے اپنی کتاب میں شامل فرما دیےاورہر لحاظ سے عورت کو صاحب عزت قرار دیا۔ اگر وہ ماں ہے تو اس کے قدموں میں جنت رکھ دی، بیٹی ہے تو نعمت قرار دیا، بہن ہےتو غم خواراور جائیداد میں حصہ دار اور بیوی ہے تو لباس اور باعثِ سکون قرار دیا۔ اسی طرح اگر ہم اپنے معاشرے پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوگا کہ ووٹ دینے اور شہری ترقی میں حصہ لینے کا حق بھی دیا ہے۔ سیاست یا سوشلائیز ہونے کا بھی حق دیا ہے اس کے باوجود آجکے جدید دور میں بھی مرد حضرات عوامی بسوں میں خود کھڑے ہوکر عورت کو جگہ دیتے ہیں اور اس بات سے کون قطع نظر ہے۔ ہماری سڑکوں پر چلنے والی بسوں میں سوار نوجوان آج بھی اس سیٹ پر نہیں بیٹھتے جس کے ساتھ والی سیٹ پر عورت بیٹھی ہواور بے شک اس سب میں بھی قابل تحسین ہیں وہ مائیں اپنے بچوں کی تربیت یوں احسن طریقے سے کر رہی ہیں لیکن افسوس آج عورت کے حقوق کے نام پر ایسے لبرل حضرات آگے آرہے ہیں جو گو کہ مرد اور عورت دونوں کے لباس میں ہیں لیکن وہ عورت کے حقوق اور تقدس سے دور اور نا واقف ایسے بے حیائ پر مبنی نعرے لگاتے ہیں کہ باعزت گھرانوں کے مردوخواتین سن کر شرم کے مارے پانی پانی ہو جائیں۔ گوکہ یہ لبرلز تعداد میں تھوڑے ہی سہی(آٹے میں نمک)، لیکن مرد اور عورت کے نام پر دھبہ اور معاشرے کے لیے ناسور ہیں۔ یہ ہمارے معاشرے کی معصوم بیٹیوں کو اس نظامِ الٰہی سے متنفر کرنے کی کوشش میں ہیں کہ جس نے ایک ایسے وقت میں جب عرب میں لڑکیوں کو زندہ دفن کیا جاتا تھا اور عورتوں کو قابل منتقلی جائیداد سمجھا جاتا تھا تو اسلام نے معاشرے میں عورتوں کو عزت دی اور انہیں بے مثال حقوق سے تحفظ دیا۔ اسلام نے خواتین کو تعلیم، اپنی پسند کے کسی سے شادی کرنے، شادی کے بعد اپنی شناخت برقرار رکھنے، خلع لینے، کام کرنے، جائیداد کی ملکیت اور فروخت کرنے، قانون کے ذریعے تحفظ حاصل کرنے، معاشرتی معاملات میں حصہ لینے کا حق دیا ہے۔ جس نے عورت کو اس قدر حقوق سے نوازا اس باپ بھائی کے خلاف اکسانے میں مصروف عمل ہیں۔ جو کہ ہمہ وقت اپنی بہن بیٹی کے ناز و نخرے اٹھانے کے لیے تیار رہتے ہیں۔
اگراس موضوع پر لکھنا شروع کیا جائے تو شاید الفاظ اور اوراق ختم ہو جائیں لیکن موضوع پھر بھی سمندر کو کوزے میں بند کر نے کے مترادف ہے لیکن یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ مرد و عورت کی بقا دین اسلام پر عمل کرنے میں ہی ہے۔

@ObaidVirk_717

Leave a reply