ایک طویل عرصہ پاکستان کے پرائیویٹ سیکٹر میں کام کر کے ایک تجربہ حاصل ہوا. جب سالانہ تنخواہ میں اضافہ ہوتا ہے تو کوئی ورکر ملازم اس شرح پر سوال نہیں کرتا جس شرح سے کمپنی تنخواہ میں اضافہ کر رہی ہوتی ہے. نہ کسی کو اس سال کمپنی کے نفع نقصان کو جاننے میں دلچسپی ہوتی ہے. سارے اعتراض و خوشی ناراضگی اسی پر ہوتی ہے فلاں کا اضافہ مجھ سے زیادہ کیسے.؟ یا فلاں سے کم کیوں.؟
ہمارا وہ کلچر ہے جہاں ہمیں ٹانگ کھینچنے کیلئے کسی پرائے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی. ہم خود ایک دوسرے کیلئے بہت ہیں. اس لئے ایک بڑی اکثریت دیہاڑی والی مزدور بن گئی ہے. صبح آو کام کرو شام کو جاتے تسلی لے لو آج کی دیہاڑی لگ گئی. بیماری اپنا گھر اور کل کے بڑھاپے میں جب دیہاڑی لگانا ممکن نہ ہوگا تب کیا ہو گا.؟ اس کیلئے جلد سے جلد بچے پیدا کرو ان کو بھی دیہاڑی پر لگاو تا کہ کل محفوظ ہو جائے.
سوشل سیکورٹی پینشن کا حق کیا ہے.؟ کنزیومر رائٹس کیا ہیں.؟ ایک ٹرک ڈرائیور زندگی بھر سڑکوں پر رُلتا پھرتا ہے. اس کی زندگی رسہ ترپال کرتے یا پرانی گاڑی کے ٹائر بدلتے گزر جاتی ہے. تنخواہ اس کی چند ہزار ہوتی ہے. لیکن اس ذمہ داری کا صلہ اس کو کیا ملتا ہے؟ کیا ملک و قوم کل اس کی ذمہ داری اٹھائے گی.؟ کل سارے ٹرک والے ہڑتال کر دیں تو ملک و قوم کو پتہ چل جائے ان کمزور کندھوں پر کتنی ذمہ داری ہے.
اشرافیہ نے طریقے سیکھ لئے ہیں. وہ زکوٰۃ صدقات تو شوق سے دیتے ہیں. لیکن مزدور کا حق دینا سب کو مشکل لگتا ہے. کل روز محشر ان کے سامنے اگر نیدر لینڈ ڈنمارک اسرائیل کی مثال رکھ دی گئی کہ بتاو ان کافروں نے بھلے صدقات و حیرات نہیں کی لیکن اپنے ہر حقدار کو اسکا پورا پورا حق دیا تب ان کو پتہ چلے گا نفس کی تسلی کے تماشے یہاں کر کے خود کو یہ تسلی دے سکتے ہیں لیکن یہ انصاف نہیں ہے.
جب تک ہمیں اپنے حقوق کی سمجھ نہیں آئے گی ہم سب ایک دوسرے سے لڑیں گے. حقوق چھین لینے والے چین کی بانسری ہی بجائیں گے. ان سے تو کوئی سوال بھی نہیں کرتا کیونکہ ہمیں ایک دوسرے سے فرصت ہی نہیں.