ہر بچہ آنکھیں کھولتے ہی کرتا ہے سوال محبت کا

2006 میں صدر پاکستان نے غلام محمد قاصر کیلئے پرائڈ آف پرفارمنس کا اعزاز دیا
0
65
poet

کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا

آج اس شعر کے خالق غلام محمد قاصر کی پچیسویں برسی ہےغلام محمد قاصر 1944 میں ڈیرہ اسماعیل خان سے 40 کلومیٹر شمال میں واقع ایک چھوٹے سے قصبے پہاڑ پور میں پیدا ہوئے۔ ان کے تین شعری مجموعے تسلسل ، آٹھواں آسماں بھی نیلا ہے اور دریائے گماں شائع ہوئے. کلیاتِ قاصر ’’ اک شعر ابھی تک رہتا ہے ‘‘ کے عنوان سے 2009ء میں شائع ہو چکا ہے۔ انہوں نے پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کے لیے متعدد ڈرامے بھی لکھے ڈراما سیریل تلاش اور بچوں کے لیے کھیل بھوت بنگلہ نے بہت مقبولیت حاصل کی۔

غلام محمد قاصر نےگورنمنٹ ہائی اسکول پہاڑپور سے میٹرک کیا ۔ بعد میں اسی اسکول میں بطور ٹیچر تقرری ہوئی ۔ ملازمت کے دوران اردو میں ایم اے کیا۔ 1975ء میں بطور لیکچرار پہلا تقرر گورنمنٹ کالج مردان میں ہوا۔ اس کے بعد پشاور ، درہ آدم خیل، طورو اور پبی کے کالجوں میں رہے۔

ساٹھ کی دہائی کے اواخر میں ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک بڑا مشاعرہ ہوا جس میں اس دور کے اکثر نامی گرامی شعرا نے حصہ لیا، جن میں ناصر کاظمی، منیر نیازی، احمد ندیم قاسمی، قتیل شفائی، محبوب خزاں وغیرہ شامل تھے۔ مشاعرے کے آغاز ہی میں ایک نوجوان شاعر کو کلام سنانے کی دعوت دی گئی چوبیس پچیس سالہ دبلے پتلے اسکول ٹیچر نے ہاتھوں میں لرزتے ہوئے کاغذ کو بڑی مشکل سے سنبھال کر غزل سنانا شروع کی، اس شعر پر آئے تو گاؤ تکیوں سے ٹیک لگائے شعرا بھی یک لخت اُٹھ بیٹھے اور تمام سامعین کی آواز میں آواز ملا کر داد دی ۔

تم یوں ہی ناراض ہوئے ہو ورنہ میخانے کا پتہ
ہم نے ہر اس شخص سے پوچھا جس کے نین نشیلے تھے

سب ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ یہ کون ہے.

1977ء میں جب ان کا پہلا شعری مجموعہ ’ تسلسل‘ شائع ہوا تو ظفر اقبال جیسے لگی لپٹی نہ رکھنے والے شاعر نے لکھا کہ میری شاعری جہاں سے ختم ہوتی ہے قاصر کی شاعری وہاں سے شروع ہوتی ہے۔آج ہی محمودالحسن نے بتایا کہ ظفر اقبال نے ان سے گفتگو کرتے ہوئے مصحفی کو شاعر ماننے سے انکار کیا.

غلام محمد قاصر کا 20 فروری 1999 کو انتقال ہوا 2006 میں صدر پاکستان نے ان کیلئے پرائڈ آف پرفارمنس کا اعزاز دیا.

غلام محمد قاصر کے کچھ شعر…

بارود کے بدلے ہاتھوں میں آ جائے کتاب تو اچھا ہو
اے کاش ہماری آنکھوں کا اکیسواں خواب تو اچھا ہو

بغیر اس کے اب آرام بھی نہیں آتا
وہ شخص جس کا مجھے نام بھی نہیں آتا

بیاباں دور تک میں نے سجایا تھا
مگر وہ شہر کے رستے سے آیا تھا

گلابوں کے نشیمن سے مرے محبوب کے سر تک
سفر لمبا تھا خوشبو کا مگر آ ہی گئی گھر تک

ہم نے تمہارے غم کو حقیقت بنا دیا
تم نے ہمارے غم کے فسانے بنائے ہیں

ہم تو وہاں پہنچ نہیں سکتے تمام عمر
آنکھوں نے اتنی دور ٹھکانے بنائے ہیں

ہر بچہ آنکھیں کھولتے ہی کرتا ہے سوال محبت کا
دنیا کے کسی گوشے سے اسے مل جائے جواب تو اچھا ہو

ہر سال بہار سے پہلے میں پانی پر پھول بناتا ہوں
پھر چاروں موسم لکھ جاتے ہیں نام تمہارا آنکھوں میں

ہر سال کی آخری شاموں میں دو چار ورق اڑ جاتے ہیں
اب اور نہ بکھرے رشتوں کی بوسیدہ کتاب تو اچھا ہو

ہزاروں اس میں رہنے کے لیے آئے
مکاں میں نے تصور میں بنایا تھا

جن کی درد بھری باتوں سے ایک زمانہ رام ہوا
قاصرؔ ایسے فن کاروں کی قسمت میں بن باس رہا

کہتے ہیں ان شاخوں پر پھل پھول بھی آتے تھے
اب تو پتے جھڑتے ہیں یا پتھر گرتے ہیں

کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا

کشتی بھی نہیں بدلی دریا بھی نہیں بدلا
اور ڈوبنے والوں کا جذبہ بھی نہیں بدلا

کتاب آرزو کے گم شدہ کچھ باب رکھے ہیں
ترے تکیے کے نیچے بھی ہمارے خواب رکھے ہیں

کوئی منہ پھیر لیتا ہے تو قاصرؔ اب شکایت کیا
تجھے کس نے کہا تھا آئنے کو توڑ کر لے جا

محبت کی گواہی اپنے ہونے کی خبر لے جا
جدھر وہ شخص رہتا ہے مجھے اے دل! ادھر لے جا

پہلے اک شخص میری ذات بنا
اور پھر پوری کائنات بنا

سایوں کی زد میں آ گئیں ساری غلام گردشیں
اب تو کنیز کے لیے راہ فرار بھی نہیں

سب سے اچھا کہہ کے اس نے مجھ کو رخصت کر دیا
جب یہاں آیا تو پھر سب سے برا بھی میں ہی تھا

سوچا ہے تمہاری آنکھوں سے اب میں ان کو ملوا ہی دوں
کچھہ خواب جو ڈھونڈتے پھرتے ہیں جینے کا سہارا آنکھوں میں

امید کی سوکھتی شاخوں سے سارے پتے جھڑ جائیں گے
اس خوف سے اپنی تصویریں ہم سال بہ سال بناتے ہیں

وہ لوگ مطمئن ہیں کہ پتھر ہیں ان کے پاس
ہم خوش کہ ہم نے آئینہ خانے بنائے ہیں

زمانوں کو اڑانیں برق کو رفتار دیتا تھا
مگر مجھ سے کہا ٹھہرے ہوئے شام و سحر لے جا

میں بدن کو درد کے ملبوس پہناتا رہا
روح تک پھیلی ہوئی ملتی ہے عریانی مجھے

گلیوں کی اداسی پوچھتی ہے، گھر کا سناٹا کہتا ہے
اس شہر کا ہر رہنے والا کیوں دوسرے شہر میں رہتا ہے

نظر نظر میں ادائے جمال رکھتے تھے
ہم ایک شخص کا کتنا خیال رکھتے تھے
جبیں پہ آنے نہ دیتے تھے اک شکن بھی کبھی
اگرچہ دل میں ہزاروں ملال رکھتے تھے

کشتی بھی نہیں بدلی، دریا بھی نہیں بدلا
ہم ڈوبنے والوں کا جذبہ بھی نہیں بدلا

پہلے اِک شخص میری ذات بنا
اور پھر پوری کائنات بنا

کیا کروں میں یقیں نہیں آتا
تم تو سچے ہو بات جھوٹی ہے

بیکار گیا بن میں سونا میرا صدیوں کا
اس شہر میں تو اب تک سِکہ بھی نہیں بدلا

آگ درکار تھی اور نور اٹھا لائے ہیں
ہم عبث طور اٹھا لائے ہیں

پیاس کی سلطنت نہیں مٹتی
لاکھہ دجلے بنا فرات بنا

نظر نظر میں اداۓ جمال رکھتے ہیں
ہم ایک شخص کا کتنا خیال رکھتے ہیں

تری پسند کی چیزیں خریدنے والے
تری پسند کے چیزوں کے نام بھول گئے

یزید نقشہ جورو جفا بناتا ہے
حسین اس میں خط کربلا بناتا ہے

یزید لکھتا ہے تاریکیوں کو خط دن بھر
حسین شام سے پہلے دیا بناتا ہے

یزید تیز ہواؤں سے جوڑ توڑ میں گم
حسین سر پہ بہن کے ردا بناتا ہے

خوشبو گرفت عکس میں لایا اور اس کے بعد
میں دیکھتا رہا تیری تصویر تھک گئی

میں نے پڑھا تھا چاند کو انجیل کی طرح
اور روشنی صلیب پہ آکر لٹک گئی

روتی رہی لپٹ کے ہر اک سنگ میل سے
مجبور ہو کے شہر کے اندر سڑک گئی

Leave a reply