ہارناناکامی نہیں خودکشی حل نہیں تحریر: سیدہ بشریٰ

0
58

زندگی کی دوڑ میں ہر انسان اتنا تیز بھاگنا چاہتا کے بس پلٹ کے پیچھے نہیں دیکھنا چاہتا ۔
دوڑو کے اسی میں بقا ہے ۔پر کسی کو کچل کر نہیں کسی کی ٹانگ کھینچ کر نہیں بلکہ کوشش کرو ہاتھ پکڑ کر كندها دے کر سہارا بنو ۔گرتے کو تھام کر دوڑو ۔
اس اندھی دوڑ اور تقلید نے بھاگنے والوں کو مدہوش کر دیا ہے ۔ہم نے اپنے گھوڑے کی لگام خود کسی اور کے سپرد کر دی ۔جہاں دوڑتے گر جانے والے کو اٹھ کے پھر دوڑنا نہیں سکھا تے ۔
ذرا سی بات پر خود کشی عام بات بن چکی اور اگر خود کشی نہ بھی کریں نشے پر لگ کر خود کو بربادکرنا آسان لگتا پر ان لوگوں سے کبھی کسی نے پوچھا کے وہ زندگی جو ایک بار ملتی اسکو سنوارنے کے بجائے اس سے مكتی کیوں حاصل کرنا چاہتے ؟اسکو برباد کر کے خود کو اذیت کیوں دیتے ؟
بچے اپنی تعلیمی نا كامی پر جان دے دیتے ۔دھوکہ ملے یا نقصان ہو جان لینا ہی حل کیوں ؟
اس کیوں کا واحد جواب ایک اندھی دوڑ کے مسافر بنا کر ان سے بس 100% کی پرفکشن کی چاہ اور ان پر دباو کے ہارنا نہیں ناکام نہیں ہونا ۔انسانوں کو روبوٹ بنا نا ۔۔لفظ” ہار” کو ایک قبیح گالی کے طور پر سکھا دیا گیا ہے ۔لوگ کیا کہیں گے ۔گھر والے کیا کہیں گے ؟ یہ وہ دباو ہیں جن میں جیتے جی کئی لوگ مر چکے ہوتے ۔سالانہ دنیا بھر میں تقر یبا 8 لاکھ لوگ ہمت ہار جاتے اور موت کو گلے لگا لیتے کے یہ راہ نجات ہے۔ کیوں ؟
اسکے پیچھے بہت سی وجو ہات ہیں جو ایک انسان کو اس نہج پر لے آتی کے اسکو سب راہیں معدوم لگتی ۔انسان سوچتا کے اب بس آگے ایک بند گلی ہے کوئی راستہ باقی نہیں بچا ۔
ان میں ایكاڈیمک پرفارمنس اور بہترین کے حصول کا پریشر
جسمانی اور ذہنی دباو یا بیماری
معاشی مسلے یا غربت ۔
نوکری کے مسائل
یا زندگی كیطرف منفی رویہ ۔
مایوسی
خود سے نفرت
کسی عمل یا حرکت پر شرمندگی ۔گلٹ
خود کو بوجھ سمجھنا
ان مسایل سے زندگی میں ہر انسان نبرد آزما ہے پر کچھ ان مسایل کو آسانی سے ٹیکل نہیں کر پا تے یا انکے ساتھ ایسا کوئی ہوتا نہیں جو انکو مشکل حالات سے لڑنے یا نبٹنے کا حو صلہ دے ۔
نا كامی کا ڈر انکے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو سب سے پہلے ختم کر دیتا ۔
دوسرا اہم مسلہ دماغی خلل کو بیماری نہ ماننا ۔اور جو انسان اس اذیت کا شکار ہو اسکو اسکے حال پر چھوڑ دینا ۔ہمیں ذہنی دباو کے شکار لوگوں کو علاج میں مدد کرنا ہو گی ۔ خودکشی کرنے والوں میں 98% وہ لوگ ہیں جو کسی نہ کسی ذہنی عارضے میں مبتلا ہوتے ۔جن میں خاص کر اہم وجہ ڈیپریشن ہے جہاں انسان کے رویئے پر لوگ بات ضرور کریں گے پر اسکو صحت مند کرنے کے لئے مدد گار کوئی نہیں بنتا ۔
گھر ہو یا سکول، مدرسہ ہو یا جا معہ کام والی جگہ جہاں لگے کسی کو کوئی ذہنی دباو ہے کوئی نا كامی ملے اس پر جج نا بنو فضول کی رائے یا بیان بازی سے اجتناب کرو اس کو سمجھاو اسکے رهبر بنو سكهاو ہارنا ایک فن ہے ۔ہار نئے رستے سکھا تی ہے۔۔اسکو تنہا نہ کرو اسکو ساتھی بنوانکو سنو بہت دھیان سے سنو وہ کیا کہتے اور انکے کہے پر جج نہ بنو انکے خیالات جذبات کو بے وقعت مت کرو ۔سب سے پہلے مایو سی کو اس کے اندر سے نکالنا ہو گا ۔ ۔۔۔تعلیم لازم پر تربیت اس سے پہلے آتی ۔۔کونسلنگ لازم حصہ ہے تربیت کا ۔سكهاو کے مایوسی خود پر ظلم ہے ۔ناامیدی یا پھر یہ سوچ اب کچھ باقی نہ بچا ۔اب کچھ نہیں ہو سکتا ۔خود سے نفرت نہیں محبت کرو کیونکہ خود سے محبت کرو گے خود کی عزت کرو گے تو دوسرے بھی قدر کریں گے ۔غلطی اگر ہوئی اس پر ٹا رچر مت کرو یہ سكهاو کے ہر غلطی کا مداوا ہے بس اسکے لئے سچے دل سے توبہ کرو معافی لو ۔خود کو بوجھ مت سمجھو خود کو فالتو مت سمجھو بلکہ خود کی اہمیت کو پہچانو ۔سمجهاو کے اپ بہت اہم ہو ۔
تربیت کا لازم حصہ بناؤ کے زندگی میں راہیں محدود ہوتی ہیں معدوم نہیں ۔ان محدود سے ہی لامحدود کا حصول ممکن ہے ۔

https://t.co/hAMDdvtehp‎
Syeda Bushra

Leave a reply