ہاتھ بے زور ہیں الحاد سے دل خوگر ہیں
تحریر کاشف علی ہاشمی
کشف الاسرار
قسط نمبر 1
تحریک لبیک پاکستان کے امیر سعد رضوی کی گرفتاری کے بعد یکا یک ہر طرف سے ان کے کارکنان نکلے روڈ اک بلاک کر دئیے جس سے عامة الناس اور عام آدمی متاثر ہواسب سے پہلے تو اگر تحریک کے لوگ محض اپنے قائد کے لیے نکلے ہیں تو یہ انکا پرسنل مسلہ ہے اس پر عوام سے اتنی ذیادتی بالکل برداشت نہیں-
دوسرا یہ کہ انکا مطالبہ سعد نہیں بلکہ سفیر کو نکالنا ہے تو اس حوالے سے ہر غیرت مند مسلمان انکے ساتھ کھڑا ہے البتہ طریقہ کار سے اختلاف سب کو ہے-
دیکھیں روڈ بلاک کرنا لوگوں کو تکلیف دینا لوگوں کی۔گاڑیاں جلانا پولیس والوں مارنا بالکل قابل مزمت ہے اگر آپ نبیؐ کے حوالے سے کھڑے اگر آپ مذہب کے حوالے سے کھڑے ہیں تو پھر مذہب پر اور نبیؐ کی تعلیمات پر پہلے خود سختی سے عمل کریں پھر ہم دوسروں پر بھی نافذ کرنے کی بات کریں-
لیکن اگر آپ خود نبیؐ کے تعلیمات کے منافی کام کریں تو ہم دنیا کو کیا پیغام دے رہے ہیں کہ غلامان محمدؐ کیسے ہیں عام عوام میں یہ تاثر اک پریشر گروپ اور غنڈہ گردی جیسا جارہاہے یقینًا کفار کا حملہ بہت بڑا ہے مگر کیا یہ بڑا حملہ ہمیں حضرت محمدؐ کی تعلیمات سے باہر لے جاسکتا ہے؟ کیا ہم اپنے آقا کےفرمودات کے خلاف خود ہی کھڑے ہو جائیں تو جیت کس کی ہے ؟ اور ہارا کون؟
مجھے ہمارے لبیک والے بھائی بتاو ہم اپنی حکومت کو کیا کہہ رہے ہیں سفیر نکالو کیوں؟ یہ ہماری دینی غیرت کا تقاضہ ہے اور اسلام کے مطابق ہے یہاں تک بات ٹھیک ہے لیکن جو طریقہ ہم نے اختیار کیا ہے کیا وہ عین اسلام کے مطابق ہے؟
جب ہم اپنے نفس پر اسلام غالب نہیں کر سکتے جب ہم بے گناہ لوگوں کو قتل کر دیں اپنے ہی مسلمان بھائیوں کی املاک کو جلادیں جب ہم اپنے ہی مسلمانو کا راستہ روک لیں اور اس کو جہاد جیسا عظیم عمل بھی گرداننے لگیں تو یقینًا یہ زیادتی ہے یہ کیسا جہاد ہے جس میں مسلمانو کا جانی و مالی نقصان ہورہا ہے اور مسلمان باہم دست و گریباں ہیں اور سرکارؐ کے احکامات کو نظر انداز کیا جارہاہے
جذبات الگ چیز ہے-
کیا ٹی ٹی پی والے بھی پہلے یہ سب کچھ اسلام اور جہاد کے نام پر نہیں کر چکے کیا داعش کا موقف یہی نہیں ہے؟ کہ جو ان مطابق نہیں مانے گا وہ کافر منافق اور واجب القتل ہے یہ ہاتھ اگر اٹھے تو آقا کے احکامات کے مطابق اٹھے. ورنہ اس کے علاوہ شمشیر تو کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ
اب زرا ہم حکومتی موقف کو بھی دیکھ لیتے ہیں کیا وجہ ہے کہ حکومت سفیر کو نہیں نکال رہی ۔ وجہ ہے فیٹف-
اچھا یہ فیٹف ہے کیا بلا. جس کی وجہ سے پہلے ہم نے ملک فلاحی کام کرنے والی جماعتوں کو بین کیا جہاد کشمیر سے پیر پیچھے ہٹائے اور اب فرانس کی ناقابل برداشت بدمعاشی کی باوجود ہم اس کے آگے سرنگوں ہیں-
فیٹف بنیادی طور پر کفار کے سات ممالک کے کہنے پر 1989 میں بنائی گئی فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس ہے جو کہ منی لانڈرنگ کے حوالے سے بظاہر دہشت گرد گروپوں کو سرمائے استعمال سے روکنے کے لیے بنائی گئی ہے-
اس پر تفصیلی بات ہم پھر کسی مضمون میں کریں گے فی الحال ہم اس کا معاملہ دیکھتے ہیں کہ فرانس نے سرکاری طور جو بدمعاشی کی ہے اور جو نبیؐ کی توہین کی ہے اور اس پر ڈٹ کر کھڑا ہوگیا ہے جبکہ ہمارے میاوں میاوں کرتے مسلمان ممالک اور ان کے سربراہان سمجھتے ہیں کہ وہ چند بیانات سے اپنے لوگوں کو ٹھنڈا کر لیں درحقیقت ہمارے پڑھے لکھے طبقے اور حکمران مکڈیا زیادہ تر الحاد کی طرف مائل ہیں کیونکہ ہم تعلیم لینے اپنے بچوں کوباہر بھیجتے اور انکہ دین پر اتنی پختگی پہلے نہیں ہوتی وہاں سیکولر لبرل ماحول میں غریب ملک کے یہ بچے سمجھتے ہیں ترقی مذہب سے ہٹ کر ملتی ہے اور ہماری یونیورسٹیاں اور ادارے الحاد کی جانب زیادہ جھکاو دکھا رہے ہیں اور اس جا کوئی موثر جواب بھی نہیں دیا جارہا ہے جس کی جانب اقبال نے اشارہ بھی کیا تھا
ہاتھ بے زور ہیں الحاد سے دل خوگر ہیں
امتی باعث رسوائی پیغمبر ہیں
بت شکن اٹھ گئے باقی جو رہے بت گر ہیں
تھا ابراہیم پدر اور پسر آذر ہیں
آج کا پڑھا لکھا مسلمان جو سرمائے اور دولت کو کل کائنات سمجھتا ہے اور اس کے پیچھے بھاگتے اس نوجوان کو جس کی تربیت اب صحابہ کرام کے واقعات اور سیرت نبیؐ کے بجائے مسٹر چپس اور شیلے جیسے لوگوں کو پڑھ کر ہوئی ہے وہ نہیں سمجھ پاتا کہ معیشت اہم ہے یا عزت اہم ہے اور عزت بھی اس ہستی کی کہ جس کے لیے مال و عزت اور جان قربان کرنے کا عزم نا ہو تو ایمان ہی نہیں مانا جاتا
سیدنا انس ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا ” کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے اہل وعیال، اس کے مال اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ بن جاؤں۔” (صحیح مسلم)۔
ایک اور روایت سیدنا عبداللہ بن ہشامؓ اس طرح نقل کرتے ہیں کہ ہم ایک مرتبہ نبی کریم کے ساتھ تھے اور آپ سیدنا عمر بن الخطابؓ کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔ سیدناعمر ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ()! یقینا آپ ()مجھے ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں سوائے میرے نفس کے جس پر نبی کریم نے ارشاد فرمایا:
” نہیں، اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے یہاں تک کہ میں تمہارے نزدیک تمہارے نفس سے بھی زیادہ محبوب ہوجاؤں۔” یعنی اس وقت تک تمہارا ایمان کامل نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں تمہارے نزدیک تمہاری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ بن جاؤں۔زبانِ رسالتؐ سے یہ بات سننی تھی کہ سیدنا عمر ؓ نے عرض کیا ” ہاں! اللہ کی قسم ، اب آپ () مجھے اپنے نفس سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔”
رسول اللہ نے ارشاد فرمایا ” ہاں اب اے عمر۔” یعنی اب تمہارا ایمان مکمل ہوا(صحیح بخاری)۔
یعنی ایمان ہی قبول نہیں بلکہ وہ تمہارا اسلام ہے ایمان نہیں-
بھلا ایمان بھی کبھی مجبور ہوتا ہے ایمان تو جان وارنے کا نام ہے ایمان تو مٹ جانے کا نام ہے ایمان تو 313 کو بے سروسامانی کے عالم میں اک بڑے لشکر کے سامنے تلواروں کے مقابل ڈنڈوں سے کھڑا کر دیتا ہے ، ایمان تو پیٹ پر پتھر باندھ کر بھوکے پیاسے خندق کھودتے سر پر کھڑے دشمن کے سامنے ڈٹ جاتا ہے ایمان تو چند ہزار کا لشکر لاکھوں کے جدید ترین اسلحے کے سامنے کھڑا ہوتا ہے اور اسے تنکوں کی طرح بکھیر دیتا ہے ، ایمان تو سات ہزار کا لشکر دشمن کی سرزمین پر اترتا اپنے ملک سے دور دشمن سرزمین چھوٹا سا لشکر ہے دشمن بہت زیادہ ہے راستوں کا پتہ نہیں مگر ایمان یہاں کشتیاں جلا دیتا ہے –
تم کہتے ہو چند نوکریاں اور معیشت کا مسلہ ہے بے غیرت بن جائیں درحقیقت مسلمانو کی معیشت تو جہاد تھی نبیؐ نے فرمایا میرا رزق میرے نیزے کی انی کے نیچے ہے جب سے جہاد چھوڑا ہے معیشت بھی عزت بھی اور اب غیرت بھی جارہی ہے
کتنا افسوس ہے کہ جب مسلمان کہتا ہے معاشی مسلہ ہے ہم نبیؐ کی توہین برداشت کر لیں
غافل آداب سے سکان زميں کيسے ہيں
شوخ و گستاخ يہ پستی کے مکيں کيسے ہيں
اس قدر شوخ کہ اللہ سے بھی برہم ہے
تھا جو مسجود ملائک’ يہ وہی آدم ہے
عالم کيف ہے’ دانائے رموز کم ہے
ہاں مگر عجز کے اسرار سے نامحرم ہے
ہم سمجھتے کہ معاشی مسلہ فیٹف کے ہاتھ ہے اور اللہ ایمان سب کچھ ختم کئیے بیٹھے ہیں اصل بات یہ ہے کہ ہماری ایمان پر تربیت نہیں ہوئی یہی وجہ کہ اک طرف ہم معاملات کرتے وقت نبیؐ کی تعلیمات کو ہمارا مذہبی طبقہ بھی پیش کرنے سے قاصر ہے اور ہمارا سیکولر طبقہ اس سے ویسے ہی دور ہے اسلام تو سب جانتے ہیں ایمانیات کے مقدمے بابت کم ہی بات ہوتی ہے ان شاءاللہ آئندہ مضامین میں ایمان کیا ہے کیسے بنتا ہے کمزوریاں کہاں ہیں پہ مفصل لکھیں گے جزاک اللہ خیرا
وما علینا الالبلاغ