مری تنہائی بانٹتے ہیں ورق ، ہاتھ کا لمس مانگتے ہیں ورق

ان کا پہلا افسانوی مجموعہ" ابابیلیں لوٹ آئیں گی" 2000 میں شائع ہوا
0
54
poet

میں کہ خاموش پڑھنے لگتی ہوں
کچھ نہ کچھ جیسے بولتے ہیں ورق

ترنم ریاض

آغا نیاز مگسی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نسائی ادب کی فہرست کے صف اول میں شامل ارود کی نامور ادیبہ، شاعرہ ، کہانی و افسانہ نویس اور ناول نگار ترنم ریاض 9 اگست 1960 میں سری نگر جموں و کشمیر میں پیدا ہوئیں۔ ان کا اصل نام فریدہ ترنم ہے لیکن معروف ادیب پروفیسر ریاض پنجابی سے شادی کے بعد ترنم ریاض کا قلمی نام اختیار کیا۔ اردو کےجدید افسانہ نگاروں میں ان کا بہت بڑا نام اور مقام ہےافسانہ نگاری کے علاوہ انہوں نے ناول نگاری ، کہانی نویسی اور شاعری میں بھی خوب جوہر دکھایا ہے۔

افسانہ نگاری ان کی پہلی پہچان ہے لیکن ان کی شہرت کا آغاز ان کی کہانی” شہر” سے ہوا بعد میں ان کے افسانے مشہور ہوتے گئے۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ” ابابیلیں لوٹ آئیں گی” 2000 میں شائع ہوا۔ حقانی القاسمی نے ترنم ریاض کو Sweet Temper افسانہ نگار کا خطاب دیا ہے۔ ترنم ریاض کی تحریروں اور شاعری میں کشمیری معاشرے کا بھرپور عکس ملتا ہے اور احتجاج کی توانا آواز بھی ایک حساس تخلیق کار کی حیثیت سے ان کی زندگی کا زیادہ تر حصہ دکھ ، درد ، کرب اور مختلف احساسات اور کیفیت میں گزرا ہے۔

انہوں نے اپنے تخلیقی احساسات کے بارے میں لکھا ہےکہ افسانہ” آدھے چاند کا عکس ” لکھتے وقت وہ ماں کی ممتا کے جذبے سے سرشار رہی کہانی ” باپ” لکھتے وقت وہ شدید ذہنی تناو کا شکاررہی افسانے ” ایجاد کی ماں” اور”میرا پیارا گھر” لکھتےوقت اسے بہت بڑا روحانی سکون میسر ہوا جبکہ افسانہ” مٹی” لکھتے وقت وہ سخت اذیت، کرب اوررنجیدہ احساس و کیفیت سے دوچاررہی ان کی تحریروں میں عورت کی مظلومیت اور محرومی کے تاثرات زیادہ ہیں وہ عورت کو حالات سے مقابلہ کرنے اور صبر کی تلقین بھی کرتی رہیں ۔ نسائی ادب کے اس نمایاں نام ترنم ریاض کی وفات 20 مئی 2021 میں ہوئی ۔

ترنم ریاض کی تصانیف

یہ تنگ زمین(1998)، ابابیلیں لوٹ آئیں گی (2000)، یمبرزل (2004)، مورتی (2004)، چشم نقش قدم (2005)، پرانی کتابوں کی خوشبو (2006)، مرا رخت سفر(2008)، فریب خطۂ گل (2009)، برف آشنا پرندے (2009)، اجنبی جزیروں میں (2015)، بھادوں کے چاند تلے (2015)، زیر سبزہ محو خواب (2015) جیسی کتابیں اُن کی شعری و نثری تصانیف ہیں جب کہ بیسویں صدی میں خواتین کا اردو ادب (2004)اُن کی ترتیب کردہ کتاب ہے۔

غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مری تنہائی بانٹتے ہیں ورق
ہاتھ کا لمس مانگتے ہیں ورق

میں کہ خاموش پڑھنے لگتی ہوں
کچھ نہ کچھ جیسے بولتے ہیں ورق

ہو چکا ہے جو علم اب نایاب
اور جو پھیلے گا جانتے ہیں ورق

سوچتا ہے یہ ذہن کیا کیا کچھ
بے سبب ہم الٹ رہے ہیں ورق

ہوشمندی سے ڈائری لکھنا
دونوں جانب سے دیکھتے ہیں ورق

روح کو دو جہاں کی راحت دیں
رحل پر راہبر رکھیں ہیں ورق

غزل
۔۔۔۔۔
بڑی گتھیاں ہیں بڑے مسئلے ہیں
کہیں کس سے ہم کس قدر مرحلے ہیں

کوئی دن کی باتیں ہیں کچھ اور سانسیں
بہت مختصر روح کے سلسلے ہیں

گلستان ہی زد میں ہے بجلیوں کی
لیے چار تنکے کدھر ہم چلے ہیں

کڑی دھوپ گم گشتہ راہیں بے منزل
شکستہ نظر ہے بلند حوصلے ہیں

نظم
۔۔۔۔۔
عیاشی
۔۔۔۔۔
محبوب کی مانند اٹھلائے
معشوق کی صورت شرمائے
ہریالی کا آنچل اوڑھے
ہر شاخ ہوا میں رقصاں ہے
میں پیار بھری نظروں سے انہیں
مسکاتی دیکھے جاتی ہوں
شاموں میں پیڑوں کو تکنا
ہے میری نظر کی عیاشی

Leave a reply