سحر (جادو ) کا لفظ قرآن پاک میں ایک مرتبہ نہی دو مرتبہ نہی
بلکہ ساٹھ بار مختلف طریقوں سے ذکر آیا ہے ۔ اور جادو کی حقیقت بتائی گئی ہے ۔ قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے کہ “ انسانوں کی انکھوں کو دھوکہ دیئے”  سحر سیکھنا اور سکھانا کن کے مشاغل ہیں ۔ سحر (جادو) کے معنی دھوکہ دینے کے فن کے ہیں ۔  یہ دھوکہ صرف نظر کو دیا جاتا ہے ۔ اور جب نظر دھوکہ کھاتی ہے ۔ تو ذہین میں وسوسے پیدا ہوتے ہیں ۔

سورہ بقرہ میں فرمایا کہ کتاب الہی سے علم حاصل نا کرنے والوں کا حال محض جاہلوں جیسا ہوتا ہے ۔ مسلمانوں کا ایسی گمراہیوں میں مبتلا ہونا آخرت سے بےخوف ہونا ہے ۔ قرآنی تعلیمات سے لاعلمی اور غفلت ، آندھی توہم پرستی بہت بڑی وجہ ہے۔

رب کی ذات بڑی مہربان ہے ۔ ہمیں اللہ تعالی پر کامل یقین ہونا چاہیے اور اسی کی ذات پر بھروسہ رکھتے ہوئے مشکل میں نماز اور قرآن و رسول کی ذات مبارکہ سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔

ہمارے دین میں جادو سیکھنا یا سکھانا نا صرف حرام ہے بلکہ کفر اور شرک کے زمرے میں بھی آتا ہے اور اب پاکستان میں قانونی طور پر جرم بھی ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار ہوتے تو اپنے اوپر معوذ تین پڑھ کر اپنے اوپر دم کرتے ۔ اور جب آپ شیدد علیل ہوتے تو میں خود معوذ تین (تینوں قل) پڑھ کر اپ کے ہاتھ پر دم کر کے اپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم پر پھیر دیتی ۔

انسان کی فطرت ہے جب وہ کسی مصیبت یا مشکل کا شکار ہوتا ہے اور اسے کوئی راستہ نظر نہی آتا تو وسوسے دل میں گھر کر جاتے ہیں ۔ اور شیطان کا کام ہی انسان کے دل میں وسوسے ڈال کر گمراہ کرنا ہے۔

قران میں واضع الفاظ میں وضاحت کر دی گئی ہے کہ جو بھی انسان شیطان کی پھیلائی گمراہی یا وسوسوں میں مبتلا ہو گا ۔ وہ آخرت میں شیطان کے ساتھ دوزخ کی آگ میں ڈال دیا جائے گا۔

قرآن میں کھلی وضاحت کے باوجود کمزور ایمان رکھنے والے
مسلمان سایہ ، بھوت پریت ، تعویذ ، جھاڑ پھونک ، قبروں ، درباروں ، آستانوں ، پیروں فقیروں سے مدد کے لئے بھاگتا ہے۔
 
جادو ٹونہ اور تعویز گنڈے یہ الفاظ نا ہی تو ہمارے لئے نئے ہیں اور شائد ہی ہمارے گھر یا خاندان میں کوئی ایسا شخص ہو گا ۔ جس نے اپنے گھر میں اپنی والدہ ، بہن ، تائی ، چچی ، خالی ، پھوپھی سے لے کر ہمسائے کی ماں جی ہوں یا گھر میں مدد کرنے والے ملازمین سب ہی زندگی میں کبھی نا کبھی یہ کہتے یا سنتے ہوئے ضرور ملے ہوں گے ۔ کہ اپ پر لگتا ہے کسی نے جادو کروا دیا ہے۔
اگر ہم غور کریں تو ان توہم پرستی اور گمراہیوں سے وابستگی کا سلسلہ ہمارے بچپن سے ہمیں ہماری مائیں اور نانی ، دادیاں ہمیں جنوں ، پریوں ، بھوت ، چڑیل کی کہانیاں سے شروع کروا دیتی ہیں ۔ من گھڑت قصے کہانیاں ، کالا جادو ، طلسمی جادوگر اور سامری جادوگر کی کہانیاں ہم سب نے سنیں بھی ہیں اور پڑھی بھی ہیں ۔
کچے اور ناسمجھ ذہنوں پر تو ہم پرستی کی سیاہ بنیاد ہمیں گھر سے ہی وراثت کی شکل میں ملتی ہے۔

گھر میں کوئی بیمار ہو جائے ۔ عدالت  اور کچھہری کے چکر ہوں ۔ بچوں کی شادیاں نہی ہوتیں ہوں ۔ اولاد نا ہوتی ہو ۔ کاروبار میں ناکامی ہو ۔ یا بیروزگاری جیسے مسائل ہوں ۔

یا پھر اقتدار کی سیڑھیاں چھڑنے کے لئے کسی کا مرید بننا پڑے ۔ ہم سب کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں ۔ کیونکہ جہاں انسان اللہ ہر بھروسہ چھوڑ کر اپنے جیسے انسانوں سے مانگے گا۔ تو وہاں ایسے لوگوں کے خوابوں کو لبھانے کے لئے لچھے دار باتوں میں الجھانے والے ستاروں کا حال بتانے والے شعبدہ بازوں کی بھی کمی نہی ہے۔

پاکستان کی سیاست میں سیاستدانوں کا پیر ، فقیر ، درباروں اور علم نجوم سے بہت ہی گہرا رشتہ رہا ہے۔
اگر ہم شریف فیملی کا 1980 کی دہائی کا ذکر کریں تو شریف خاندان پر علامہ طائر القادری کا بہت گہرا روحانی اثر تھا۔ نواز شریف صاحب کی بیشمار تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں ۔ بلکہ علامہ طائر القادری خود ذکر کرتے ہیں ۔ کہ چھوٹے میاں صاحب نے انھیں کندھے پر بیٹھا کر خانہ کعبہ کا طوائف بھی کروایا ۔

نواز شریف صاحب کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ ایک بیوروکریٹ حسن پیرزادہ سے رہنمائی لیا کرتے تھے۔ پھر پیر تنکاہ سمیت مختلف لوگوں سے رہنمائی لیا کرتے تھے۔

دیوان بابا کا ذکر نا کرنا بھی زیادتی ہے ۔ جن کے پاس نواز شریف وزیراعظم بننے کے چھڑی کھانے تک جاتے تھے۔ یہ بات تو زبان صد عام تھے کہ نواز شریف صاحب کو درباروں پر لے کر جانے والے سابقہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار ہی  تھے۔
لیکن ایک سب سے اہم بات نواز شریف صاحب اپنی مرحومہ بیگم کلثوم نواز کی کوئی بھی بات نہی ٹالتے تھے۔

آصف زرداری پاکستان کی سیاست کے گُرو مشہور ہیں ۔لیکن ان کے بھی روحانی گُرو اعجاز شاہ گوجرانوالہ سے تھے۔ انھیں کے حکم سے ایوان صدر میں روزانہ کالے بکرے کی قربانی دی جاتی تھی ۔ وہ زرداری صاحب کے ساتھ دوروں پر بھی جایا کرتے تھے۔ انھیں کے حکم پر کب زرداری صاحب پہاڑی علاقے اور کب سمندر کنارے بسیرا کریں گے وہی طے کرتے تھے ۔

اصف علی زرداری کی صدرات کے بعد پیر اعجاز شاہ نے پیر عمران خان سے بھی قربتیں بڑھانے کی کوشش کی تھی ۔ سنا ہے کہ انھوں نے بھی عمران خان کو وزیراعظم بننے کی پیشن گوئی کی تھی۔ لیکن شائد عمران خان صاحب کو وہ متاثر نا کر پائے۔ یا شائد خان صاحب کسی اور کو اپنا پیر مان چکے تھے ۔

محترمہ بےنظیر بھٹو کے بارے میں کہا جاتا ہے ۔ کہ شائد ان کا کوئی ایک مستقل پیر ،یا گُرو نہی تھا۔ انھیں بہت سارے بزرگ ہستیوں سے عقیدت تھی۔ لیکن ایک بزرگ جو مانسہرہ دیوانہ بابا جو کہ چھڑی والے بابا کے نام سے مشہور تھے۔ جی یہ وہی بزرگ ہیں جن کے پاس نواز شریف صاحب بھی چھڑی کھانے جایا کرتے تھے۔ ان بزرگ ہستی کے پر ستاروں میں تقریبا سارے ہی سیاستدان آتے تھے۔
محترمہ بےنظیر بھٹو اور نواز شریف صاحب کی عقیدت کا یہ حال تھا کہ ایک نے ان کے آستانے تک سڑک بنوائی تو دوسرے نے بجلی پہنچائی۔
یہ پیری مریدی اور درباروں کا سلسلہ صدیوں سے چلتا آ رہا ہے وہ جونہی آگے بھی ایسے ہی چلتا رہے گا۔ جی ہاں اب نواز شریف صاحب کی صاحبزادی مریم نواز شریف کے بارے میں صحافی عمران ریاض فرماتے ہیں ۔ کہ وہ جو ایک خاص قسم کا گلاس ہاتھ میں پکڑے اپنی ہر تصویر میں نظر آتی ہیں وہ دراصل ان کو ایک لاہور کے خواجہ سرا نے دم کر کے دیا ہے۔
اور ہم نے اکثر مریم نواز کو بھی عدالت کے اندر ہاتھ میں تسبح پکڑے کچھ نا کچھ پڑھتے ہی دیکھا ہے۔

اب تسبیح محترمہ بےنظیر بھٹو پکڑیں یا مریم نواز پکڑیں یا عمران خان یا پھر جنرنل فیض تسبح تو تسبیح ہی رہے گی ۔

ہاتھ میں پکڑی تسبیح تو رب کے قریب کر دیتی ہے کیا ہاتھ میں پکڑا گلاس اقتدار کی لذت دے پائے

یہ تو سیاستدان ہیں ۔ جن کا ماضی اور حال سب ایک جیسا ہے ۔ لیکن پھر بھی خود کو فرشتہ اور دوسرے کو شیطان ثابت کرنے پر ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ اور اپنے اپنے پیروں سے معجزے  کروانے کے طلبگار رہتے ہیں ۔
سورہ انبیا میں فرمایا پیغمبروں سے تمام معجزے محض اللہ کے حکم سے ہی ظاہر ہوئے ہیں ۔ اور کسی پیغمبر کو بھی خود سے معجزہ پیش کرنے کا رہتی برابر بھی اختیار نہی دیا گیا۔

Shares: