حضرات ایک ضروری اعلان سماعت فرمائیں، فلاں ابن فلاں، فلاں کے بھائی، فلاں کے والد اور فلاں کے قریبی رشتے دار کا رضائے الٰہی سے انتقال ہو گیا ہے نماز جنازہ بوقت… بجے صبح /دوپہر /شام فلاں جنازہ گاہ میں ادا کی جائے گی، نماز جنازہ میں شرکت فرما کر ثواب دارین حاصل کریں شکریہ ۔
یہ وہ اعلان ہے جو ہم اپنی روزمرہ زندگی میں اکثر سنتے ہیں اور سن کر اگر وہ شخص کوئی واقف ہو تو اس کی آخری رسومات میں شرکت کرتے ہیں ورنہ اس اعلان کو نظر انداز کر دیتے ہیں ۔
مشہور ہے کہ کسی نے ملک الموت سے پوچھا کہ آپ کسی بھی شخص کی روح قبض کرنے سے پہلے اسے تھوڑی سی مہلت تو دیا کریں تاکہ وہ توبہ کر سکے تو ملک الموت نے کہا کہ کہ کیا آپ روز اپنے اردگرد ہونے والی اموات نہیں دیکھتے یہ اس بات کا اعلان ہی تو ہے کہ جو روح دنیا میں آئی اس کا کسی بھی وقت واپسی کا بلاوا آ سکتا ہے تو ہر وقت موت کو خوش آمدید کہنے کی تیاری رکھو۔
دنیا میں ہر نظریہ کو ماننے والے لوگ ہیں ملحد حضرات بھی ہیں، ہو سکتا ہے آخری وقت میں ان کے ذہن میں یہ خیال ہو کہ ہم ساری عمر خدا کے وجود کا انکار کرتے رہے، کیا ہم درست تھے؟ البتہ ایسے ملحد حضرات بھی موجود ہوں گے جنہوں نے زندگی کے ہر لمحے سے خوشی کشید کی ہو اور وہ خندہ پیشانی سے اپنے انجام کو قبول کریں ۔
مختلف مذاہب کو ماننے والے لوگ بھی ہوں گے جن کے بارے میں گمان غالب ہے کہ وہ اپنے آخری وقت میں اپنے عقیدے کی صداقت کے بجائے اس بات پر متفکر ہوں گے کیا ان کے اعمال اس قابل ہیں جن کی بنیاد پر وہ بے خوف و خطر اپنے رب کی بارگاہ میں پیش ہوں سکیں البتہ ان میں بھی ایسے لوگ کم تعداد میں ہی سہی لیکن موجود ہوں گے جن کو یقین ہو گا کہ ہم نے تمام زندگی اپنے رب کی نافرمانی نہیں کی اس لئے ہمارے ساتھ رب خیر والا معاملہ کریں گے ۔
پاکستان میں 40 سال کی عمر کے بعد زندگی کو بونس سمجھا جاتا ہے یعنی کسی وقت بھی رب کا بلاوا آ سکتا ہے سابقہ زندگی جو غفلت میں گزر گئی اور نامہ اعمال پر جو سیاہی چڑھ گئی اس کا مداوا تو صرف رب کی بارگاہ میں سچے دل سے کی گئی توبہ اور اشک ندامت ہی ہیں لیکن جو زندگی بچ گئی اسے غفلت میں گزارنا سراسر نادانی ہے۔
برسبیلِ تذکرہ بتاتا چلوں کہ میرے خیال میں تمام لوگوں کو اپنے نظریات اور عقیدوں کے ساتھ جینے کی مکمل آزادی ہونی چاہئے البتہ دوسروں کو اپنے نظریات کی تبلیغ کرنے کے بجائے ہمیں خود کو ایسا بنانا چاہئے کہ لوگ ہمارے جیسا بننے کی آرزو کریں ۔
ایسے رہا کرو کہ کریں لوگ آرزو
ایسا چلن چلو کہ زمانہ مثال دے
اس تحریر کی وجہ یہ ہے کہ 40 سال کی عمر میں جب ہماری زندگی کی عصر ہو گئی ہے اور کسی وقت بھی زندگی کی مغرب (زندگی کا سورج غروب) ہو سکتی ہے ہم ایسے کیا اعمال کریں کہ جن کی وجہ سے ہم رب سے ملاقات (بعد از موت) سے خوفزدہ نہ ہوں بلکہ شدت سے اس ملاقات کے متمنی ہوں ۔
ہر مذہب میں رب کو راضی کرنے کے لئے مختلف احکامات ہیں اس تحریر میں ہم اسلامی نکتہ نظر سے رب کو راضی کرنے کے لئے لازمی احکامات یا فرائض بیان کر رہے ہیں، تحریر پڑھتے ہوئے یہ بات مدنظر رہے کہ یہ تحریر کسی عالم دین کی نہیں بلکہ ایک عام دنیا دار بندے کی ہے اس لئے آپ بندے کی تحریر سے اختلاف کر سکتے ہیں ۔
دنیا کی زندگی ہمارا امتحان ہے کہ ہم رب کے فرماں بردار ہیں یا نا فرمان، ایسا امتحان جس میں تھیوری بلوغت سے پہلے پڑھائی جاتی ہے جبکہ بلوغت کے بعد صرف پریکٹیکل (عمل) پر زور دیا جاتا ہے ۔
بقول علامہ اقبال
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
دین ہے کیا؟
اللہ کے بتائے گئے اعمال یا احکامات کا مجموعہ ہے ۔
1۔کلمہ طیبہ
2۔نماز
3۔روزہ
4۔حج
5۔زکوٰۃ
کلمہ طیبہ پڑھ کر ہم دین میں داخل ہوتے ہیں، روزے سال میں ایک مہینے کے لئے فرض ہیں اس میں بھی بیمار لوگوں کو رعایت ہے ، حج زندگی میں ایک مرتبہ لازمی (صاحب استطاعت لوگوں پر) اور زکوٰۃ سال میں ایک مرتبہ صاحب نصاب لوگوں پر فرض ہے ۔
روزانہ کرنے والا عمل صرف نماز بالغ مسلمان پر دن میں پانچ مرتبہ فرض ہے اس میں بھی رعایت ہے کہ اگر مسجد میں باجماعت ادا نہیں کر سکتے تو گھر میں یا جہاں پاک جگہ میسر ہو ادا کریں، اگر بیمار ہیں تو بیٹھ کر یا لیٹ کر یا اشاروں سے ادا کریں اور اگر کسی وجہ سے نماز وقت پر ادا نہیں کر سکے تو بعد میں قضاء نماز ادا کریں ۔
اس کے علاوہ ایک آخری بات کہ حقوق العباد کا خیال کریں کسی دوسرے کی حق تلفی نہ کریں جس بات پر آپ کا ضمیر آپ کو لعن طعن کرے وہ عمل نہ کریں ۔
دین مشکل نہیں مشکل ہم نے خود بنایا ہوا ہے اس لئے فرائض کی ادائیگی کا اہتمام کیجئے اگر اس کے بعد گنجائش ہو تو مزید اعمال بھی کیجئے تاکہ آخری وقت میں آپ سورۃ فجر کی ان آیات کی عملی تفسیر ہوں ۔
يَآ اَيَّتُـهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّـةُ (27)
(ارشاد ہوگا) اے اطمینان والی روح۔
اِرْجِعِىٓ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً (28)
اپنے رب کی طرف لوٹ چل، تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی۔
فَادْخُلِىْ فِىْ عِبَادِيْ (29)
پس میرے بندوں میں شامل ہو۔
وَادْخُلِىْ جَنَّتِيْ (30)
اور میری جنت میں داخل ہو۔