عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سعودی عرب کے مقدس شہر مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے، آپ کا نام عمر بن خطاب، لقب ‘فاروق’ اور کنیت ‘ابو حفصہ’ تھی۔ آپ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خسر اور تاریخ اسلام کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، ان کا شمار بہترین علما و زاہدین صحابہ میں ہوتا تھا عمر رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ اور پہلے مسلم لیڈر تھے جنہیں امیر المومنین کا خطاب دیا گیا۔ ہمارے پیارے نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد ،آپ کے سب سے قریبی دوست ،حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو مسلمانوں کا پہلا خلیفہ چنا گیا اور انہوں نے تقریباً دو سال تک مسلمانوں کی رہنمائی فرمائی، جب ابوبکر صدیق کو اپنا آخری وقت قریب دکھائی دیا تو انہوں نے اپنے قریبی رفقاء کو اکٹھا کیا اور انہیں بتایا کہ انکا ساتھ اب ختم ہونے کو ہے اس لیے اب وہ اپنا اگلا خلیفہ اپنے درمیان سے کسی کو چن لیں۔ لیکن بہت سی بحث اور مشوروں کے بعد بھی جب کی فیصلہ نہیں کر سکے تو انہوں نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو فیصلہ کرنے کا اختیار سونپا ۔آپ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا انتخاب فرمایا۔۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے آس پاس کے کچھ لوگوں نے اس پر تشویش کا اظہار کیا ک چونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بہت ہی سخت مزاج اور غصیل شخصیت کے حامل ہیں تو لوگوں پر بہت سختی کریں گے۔ جسکے جواب میں
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس وقت اُن سب میں سے بہترین انسان ہیں۔ حضرت عمر فاروق کو مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ کے طور پر چن لیا گیا۔ آپ نے خلافت سنبھالتے ہی سب سے پہلے اپنے لوگوں سے خطاب کیا اور خود سے اپنی توقعات کے بارے میں وضاحت کی۔۔ آپ کو اپنی سخت گیر طبیعت کے بارے میں لوگوں کی تشویش سے آگاہی تھی اس لیے اپنے خطاب میں اسکے متعلق فرمایا:
لوگو! گواہ رہی کے مجھے آپ لوگوں کے معاملات دیکھنے کے لیے چنا گیا ہے اس لیے میری سختی آپ لوگوں کے لیے اب کمزور پڑ گئی ہے۔ لیکن میری سختی اور کھردرا پن ابھی بھی حد سے تجاوز کرنے اور جبر کرنے والوں کے لیے قائم ہے۔ اور انکے رخسار مٹی میں ملاؤں گا ۔۔ نیک اور پرہیز گار لوگوں کی حفاظت کے لیے میں اپنے رخسار بھی مٹی میں ملا ڈالوں گا۔
ساتھ ہی ساتھ آپ نے لوگوں کو بتایا کہ وہ جو کچھ بھی کاشت کرتے ہیں یا جو بھی مال غنیمت انکا ہے اس میں سے کچھ بھی نہیں لیں گے ہاں مگر بس اتنا ہی جتنا کے اللہ کا حکم ہے۔ اور اس مال کو بھی وہ صرف اللہ کے حکم کے مطابق خرچ کریں گے۔ انہوں نے لوگوں کو بتایا کہ وہ انکی تنخواہیں بڑھائیں گے اور انکی سرحدوں کی حفاظت کریں گے. آپ نے وعدہ کیا کے وہ اپنی فوج کو غیر ضروری خطرے میں نہیں ڈالیں گے اور انکو زیادہ لمبے عرصے تک اپنے خاندانوں سے دور نہیں رکھیں گے۔ اور انکی غیر موجودگی میں ریاست انکے بیوی بچوں کی ذمےداری لیے گی۔ آپ یقین رکھتے تھے کے لیڈر کا کام اپنی ریاست کے لوگوں کی حفاظت کرنا ہے۔
آپ اتنی بڑی ریاست کے حکمران ہونے کے باوجود ،اپنے ساتھ کوئی محافظ نہی رکھتے تھے۔ مدینہ کی گلیوں میں آپ ایک عام انسان کی طرح گھومتے پھرتے تھے، حتٰی کہ رات کے وقت بھی۔ بلکہ رات کے وقت وہ جان بوجھ کر گلیوں میں گھومتے اور مجبور لاچار لوگوں کی مدد فرماتے۔
آپ خود کو ایک معمولی انسان گردانتے لیکن تاریخ اور حقائق حمے یہی بتاتے ہیں کے آپ ایک عظیم الشان حکمران اور انسان تھے، آپ جسمانی اور روحانی دونوں لحاظ سے بہت مضبوط انسان تھے۔ آپ بہت سخی، نیکوکار اور عاجزی سے زندگی گزارنے والے انسان تھے۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر پوری طرح کاربند تھے۔ آپ حق اور باطل کی بخوبی پہچان کر سکتے تھے۔ آپ تکلیف محسوس کرتے تھے جب امت یا کوئی ایک فرد بھی کسی تکلیف میں ہوتا اور آپ خوش ہوتے تھے جب امت کو خوشحال اور مطمئن دیکھتے تھے۔ آپ چار خلفائے راشدین میں سے تھے۔ آج بھی آپ طاقت، انصاف، پیار اور رحم کرنے میں سب کے لیے ایک مثالی شخصیت ہیں۔آپ ایک باعظمت، انصاف پسند اور عادل حکمران مشہور ہیں۔
@NiniYmz








