پشاور:صحت کارڈ عوام کی خدمت کا ایک نیااورقابل فہم منصوبہ ہے ،صوبائی حکومت صحت کارڈ پروگرام کو مزید جامع بنانے کے لیے پر عزم ہے،وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے کہا ہے کہ صوبائی حکومت صحت کارڈ پروگرام کو مزید جامع بنانے کے لیے پر عزم ہے۔وزیر اعلیٰ محمود خان کی زیر صدارت صحت کارڈ اسکیم سے متعلق اجلاس کا انعقاد ہوا جس میں صحت کارڈ اسکیم کے تحت مفت علاج معالجے کے حوالے سے پیشرفت کا جائزہ لیا گیا۔

اجلاس میں بریفنگ بھی پیش کی گئی جس میں کہا گیا کہ صحت کارڈ اسکیم کے تحت اب تک 12 لاکھ سے زیادہ مریضوں کا مفت علاج معالجہ کیا گیا ہے، صحت کارڈ اسکیم کے تحت شہریوں کے مفت علاج معالجے پر اب تک 29 ارب روپے خرچ کئے گئے ہیں۔

بریفنگ میں کہا گیا کہ اسکیم کے تحت اب تک دل کے ایک لاکھ 6 ہزار سے زیادہ مریضوں کا مفت علاج کیا جا چکا ہے، اسکیم کے تحت گائنی کے ایک لاکھ 86 ہزار سے زیادہ مریضوں کا مفت علاج کیا جا چکا ہے اور اب تک کینسر کے 58 ہزار مریضوں کا مفت علاج کیا جا چکا ہے۔

پیش کی گئی بریفنگ میں کہا گیا کہ اسکیم کے تحت کڈنی ٹرانسپلانٹ کے 85 کیسز کئے گئے، لیور ٹرانسپلانٹ کے 9 کیسز، صحت کارڈ اسکیم کے تحت مفت علاج معالجے پر سالانہ تقریبا 23 ارب روپے کے اخراجات آتے ہیں۔بریفنگ میں کہا گیا کہ اسکیم کے تحت ملک بھر میں 11 سو 15 نجی و سرکاری ہسپتالوں میں مفت علاج معالجے کی سہولت دستیاب ہے، ان میں 254 سرکاری جبکہ 861 نجی ہسپتال شامل ہیں۔

وزیر اعلیٰ محمود خان نے متعلقہ حکام کو مفت بون میرو ٹرانسپلانٹ کی سہولت بھی اسکیم میں شامل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں جلد از جلد پروپوزل تیار کر کے منظوری کے لئے پیش کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ بون میرو ٹرانسپلانٹ مہنگا علاج ہے جو عام آدمی کے بس میں نہیں، ہمارا مقصد عام آدمی کو زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کرنا ہے، صوبائی حکومت اس مقصد کے لئے درکار مالی وسائل ترجیحی بنیادوں پر فراہم کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت صحت کارڈ پروگرام کو مزید جامع بنانے کے لئے پر عزم ہے، صوبائی حکومت ہر قسم کے علاج معالجے کو صحت کارڈ اسکیم میں شامل کرنے پر کام کر رہی ہے۔

محمود خان نے کہا کہ عوام کی سہولت کے لئے معیار پر پورا اترنے والے صوبے کے تمام سرکاری ہسپتالوں میں صحت کارڈ اسکیم کے تحت مفت علاج کی سہولیات فراہم کی جائیں، صحت کارڈ کے تحت مفت علاج کے لئے ہسپتالوں کے انتخابات میں قواعد و ضوابط پر عملدرآمد کو ہر لحاظ سے یقینی بنایا جائے۔

Shares: