جون ایلیا صاحب ہمارے دورکے بہت بڑے شاعر گزرے ہیں وہ ایک مزاحیہ بات کرتے تھے جو کسی حد تک ٹھیک بھی ہے خاص طورپر ان لوگوں کیلیے جو تاریخ میں خاصی دلچسپی رکھتے ہیں نہ کہ معاشرتی علوم میں ۔
‘پاکستان علی گڑھ کے لونڈوں کی شرارت تھی’

نیا پاکستان ایچی سن کے لونڈوں کی شرارت ہے ۔جن کو نہیں پتہ ان کو بتا دوں کہ ایچی سن لاہور کا ایک اعلیٰ شاندارشاہی قسم کا کالج ہے جو دوسوایکڑ کے رقبے پرمحیط ہے۔ 1886میں انگریزوں نے امرا، اشرافیہ، جاگیرداروں اوراعلی سرکاری طبقے کے لیے بنایا تھا اوراب تک یہ روایت چلی آرہی ہے۔ جہاں پرنصابی اورغیر نصابی سرگرمیاں بھرپورطریقے سے کروائی جاتی ہیں ۔ ایسا ملک جہاں پینےکا صاف پانی نہیں اورصحت کی بنیادی ترین سہولیات میسرنہیں وہاں ہم ایسے کالج کی بات کررہے ہیں جس کا نام ایچی سن کالج لاہور ہے ۔

اس وقت حکومت میں شامل لوگوں کی بات کریں تواکثریت اسی کالج کے فارغ التحصیل ہیں ۔
ہمارے وزیراعظم عمران خان، سابق وزیرخزانہ حفیظ شیخ شاہ محمود قریشی، پرویزخٹک، خسروبختیار، حاضر سپریم کورٹ کے چارجج ایچی سن کالج کے پڑھے ہوئے ہیں ۔ ماضی میں بہت سے اہم لوگ جو یہاں سے تعلیم حاصل کرکے اعلی عہدوں پربیٹھے رہے ہیں ان میں فاروق لغاری، اعتزاز احسن، فیروزخاں نون، ایازصادق، اکبربگٹی، فیصل صالح حیات، غلام مصطفی کھروغیرہ ۔

کچھ مہینے پہلے ایک والدین نے اپنے بچے کو ایچی سن داخل کروانے کی درخواست دی اوردرخواست یہ کہہ کر رد کردی جاتی ہے کہ آپکی سالانہ آمدن اٹھارہ لاکھ روپے ہے اس لیے آپ ہمارے تعلیمی اخراجات اٹھانے کے قابل نہیں ہیں۔ مطلب ایک آدمی جسکی ماہانہ آمدن ڈیڑھ لاکھ روپے ہیں وہ اس کالج میں پڑھنے کا ایل نہیں ہے۔ ہمارے ہاں تین قسم کے لوگ حکمرانی کرنے کیلیے آتے ہیں۔

ایک جاگیردار، دوسرےبیورکریٹ، تیسرےفوجی افسر۔

وہ لوگ جو ہماری طرح کسی سرکاری سکول یا کالجزمیں پڑھتے ہیں اوربعد میں بیس ہزارکی نوکری کی خاطرساری زندگی داو پرلگا دیتے ہیں۔ ایک معمولی نوکری کیلیے دن رات ایک کرتے ہیں نیند قربان کرتے ہیں لیکن حاصل کچھ نہیں ہوتا۔ اسکی وجہ یہ ہوتی ہے ہم کو وہ ماحول اورتعلیم کی آسائشیں حاصل نہیں ہوتی جوکسی جاگیرداریا اعلی سرکاری شخص کے بیٹے کو حاصل ہوتی ہیں ۔

معذرت کے ساتھ ہمارے ملک کی تمام سرکاری جامعات میں اتنی قابلیت نہیں کہ وہ ہمیں ایچی سن یا لمزکے برابرلا کھڑا کرے۔ انہی نرسریوں سے یہ بڑے ہوکرباہرتعلیم حاصل کرتے ہیں اورواپس آکراعلی عہدوں پربراجمان ہوتے ہیں اورہم پرحکمرانی کرتے ہیں ۔

اگرآپ کو یقین نہیں آتا تو خود دیکھ لیں کتنے لوگ ہیں جو ٹاٹ کے سکولوں سے پڑھ کرحکمران بنے ہوں، جوکسی مزدورکا بیٹا سینٹربنا ہو، کسی ریڑھی بان کی بیٹی آرمی میں اعلی عہدے پرہو، کسی مزارعے کے بیٹے نے سی ایس ایس ٹاپ کیا ہو۔ آپ کو یہ مثالیں کہیں نہیں ملیں گی۔ امیرکا بچہ امیرہی رہتا ہے اورغریب کا بچہ غریب ہی. ہمارے ملک میں دو طبقے پیدا ہوئے ہیں ایک وہ جنہوں نے غربت کھڑکی سے دورکہیں ناچتی دیکھی ہے دوسرے وہ جو گلے تک غربت کے شکنجوں میں جکڑے ہوئے ہیں ۔

انہی کلاس کے لوگوں نے ملک کے اہم اداروں میں پنجے گاڑھے ہوئے ہیں وہ ملٹری ہو، عدلیہ ہو، بیورکریسی ہو یا سیاست ہو۔ ہماری بد نصیبی یہ ہے کہ ہم ایچی سن، لمزیا آکسفورڈ کے پڑھے ہوئے نہیں ہیں۔ اس سے شاہد ہم بھی اپنے ٹوٹے بکھرے خوابوں کو جوڑ لیتے۔ میرے جیسے ہزاروں نوجوان جو اپنی پہچان چاہتے ہیں جو ملک و معاشرے کیلیے کچھ زیادہ کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ یہ خواب اپنے سینے میں دفنا کرمرجائیں گے۔

@saimmustafa9

Shares: