مزید دیکھیں

مقبول

یہ زوال بھی کمال ہے: نغمئہ بےصدا ..از .. زیمشاسید

:یوری برمنوف KGB روس (Russia) کا ایک تربیت یافتہ جاسوس تھا جس نے 1963-1986 کے عرصے کے دوران روس، بھارت، امریکا اور کینیڈا میں بطور "جرنلسٹ” خدمات سرانجام دی۔ Yuri Alexandrovich Bezmenov نے 1983 میں ایڈورڈ گریفن کو دیے گئے ایک انٹرویو میں "نظریاتی براندازی” ideological subversion کو تفصیل سے بیان کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ نظریاتی براندازی کے چار مختلف مراحل ہیں۔
اخلاقی ابتری demoralization،
عدم استحکام destabilization،
بحران crisis
اور معمول پر آنا normalization
نظریاتی براندازی ففتھ جنریشن وار کے مہلک ترین ہتھیار کے طور پر استعمال کی جارہی ہے جسکے تحت دشمن ایجنٹس یا ہٹ مین کسی بھی ملک کی سیاسی، سماجی اور معاشرتی صورتحال میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے اس کے نوجوانوں کی برین واشنگ کرتے ہیں۔

پندرہ سے بیس سال کے عرصے میں اخلاقی انحطاط کا شکار ایک نسل پروان چڑھائی جاتی ہے جو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری، جنسی فرسٹریشن کا شکار اور منفی رحجانات سے بھرپور ہوتی ہے اور اس میں مغربی طرز کے تعلیمی نظام سے لے کر میڈیا (اور آج کل سوشل میڈیا بھی) بھرپور کردار ادا کرتے ہیں۔

تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ جنسی رحجانات نہ صرف اخلاقی بگاڑ کا سبب بنتے ہیں بلکہ کئی جسمانی اور نفسیاتی عوارض کا root cause بھی یہی ہیں۔ نتیجتاً ایک ایسا جتھا تیار ہوتا ہے جو فکری و عملی لحاظ سے معذور ثابت ہوتا ہے۔ ان نوجوانوں کے سامنے آپ دلائل کے انبار، ثبوتوں کے ڈھیر پیش کردیں وہ پھر بھی غلط کو غلط سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔

روس (Russia) نے ہرمن کے نظریات پر عمل کرتے ہوئے اپنی عملداری قائم کی اور پھر یہی ہتھیار برٹش ایمپائر کے بعد امریکیوں کے ہاتھ لگا۔ پھر کیا عجب کہ کیسے اور کیوں یہاں ایوانوں میں اکلیم اختر٬ طاہرہ سید اور حریم شاہ جیسے لاتعداد رنگین رنگوں سے سیاست کی سیاہ داستانیں لکھی جاتی ہیں۔

صلیںبی جنگوں سے نچوڑا جانے والا اخلاقی انحطاط کا سبق آنے والے میں دور میں کتنا تباہ کن ثابت ہوگا اس کا اندازہ اور کسی کو ہو نہ ہو اس ڈاکٹرائن کے خالق جرمن نژاد صلیبی انٹیلیجنس کے سربراہ ہرمن کو اچھی طرح ہوگیا تھا۔ تبھی اس نے سلطان صلاح الدین ایوبی کو بہت یقین سے کہا تھا:

"ہم نے آپ کے امراء کے دلوں میں حکومت، دولت ، لذت اور عورت کا نشہ بھر دیا ہے، آپ کے جانشین اِس نشے کو اتار نہیں سکیں گے اور میرے جانشین اِس نشے کو تیز کرتے رہیں گے۔ سلطان معظم ! یہ جنگ جو ہم لڑرہے ہیں ، یہ میری اور آپ کی ، یا ہمارے بادشاہوں کی اور آپ کی جنگ نہیں، یہ کلیسا اور کعبہ کی جنگ ہے، جو ہمارے مرنے کے بعد بھی جاری رہے گی،

اب ہم میدان جنگ میں نہیں لڑیں گے، ہم کوئی ملک فتح نہیں کریں گے، ہم مسلمانوں کے دل و دماغ کو فتح کریں گے، ہم مسلمانوں کے مذہبی عقائد کا محاصرہ کریں گے، ہماری لڑکیاں ، ہماری دولت، ہماری تہذیب کی کشش جسے آپ بے حیائی کہتے ہیں، اسلام کی دیواروں میں شگاف ڈالے گی، پھر مسلمان اپنی تہذیب سے نفرت اور یورپ کے طور طریقوں سے محبت کریں گے، سلطان معظم! وہ وقت آپ نہیں دیکھیں گے ،میں نہیں دیکھوں گا ،ہماری روحیں دیکھیں گی۔”

اور اسی لیے پھر سلطان صلاح الدین ایوبی نے وہ مشہور زمانہ الفاظ کہے کہ

"اگر کسی قوم کو بغیر جنگ کے شکست دینی ہو تو، اُس قوم کے جوانوں میں بے حیائی پھیلا دو!!”

Ideologic subversion
برین واشنگ کے ذریعے پوری دنیا میں قابل عمل بنایا گیا لیکن اس کا اصل شکار مسلمان تھے۔ آج نوجوانوں کی "ترجیحات” انکا لب ولہجہ اخلاقی زوال کا مظہر ہے تو اسکی بنیادی وجہ یہی ideological subversion ہے جس نے صحیح غلط جائز و ناجائز کی تفریق ختم کردی۔ ہمارے ہاتھوں میں موجود یہ سمارٹ فونز دراصل ہمارے کردار کی تعفن زدہ لاش اپنے اندر چھپائے، عزتوں کے جنازے اٹھائے پھرتے ہیں.

ایسے میں کوئی لاش منظر عام پر آجائے تو کہرام بپا ہوجاتا ہے اور سب گدھ اسے نوچنے کو بے تاب نظر آتے ہیں۔ سوال یہ نہیں کہ نکاح کا جائز رستہ موجود ہوتے ہوئے بھی لوگ آن لائن ایسی اخلاق باختہ حرکتیں کیوں کرتے ہیں۔ جواز یہ بھی نہیں کہ کسی کی مرضی کے بغیر اس کی "ذاتی مصروفیات” پر مبنی مواد وائرل ہونا غلط ہے۔

بات صرف اتنی سی ہے کہ ہم کیوں ہر غلاظت کو پھیلانا اپنا فرض سمجھتے ہیں؟

کسی نے کچھ غلط کیا وہ اس کا عمل ہے جس کے لیے وہ خود جوابدہ ہوگا لیکن اس کے اس عمل کو آگے بڑھانے والے بھی برابر قصور وار ہیں۔

یاد رکھنے کی بات یہ کہ پرائیویسی نام کے عفریت کا وجود کبھی تھا ہی نہیں۔ انسان کے ہر عمل پر نہ صرف گواہ موجود ہیں بلکہ فائلز میں رجسٹر بھی کیا جارہا ہے۔

چلیں اسلامی تعلیمات کو سائیڈ لائن بھی کر دیں تو بھی موبائلز میں جو ایپلیکیشنز انسٹالڈ ہوتی ہیں ان کے ذریعے ڈیٹا تک رسائی کوئی مشکل نہیں اور اب تو Deep Fake ٹیکنالوجی میں ایسے algorithms تیار کرلیے گئے ہیں کہ جنکی مدد سے جعلی ویڈیوز اتنی accuracy کے ساتھ بنائی جاتی ہیں کہ انسانی آنکھ سے اصل اور نقل میں تفریق کرنا تقریباً ناممکن ہے۔

روز محشر جب ہوگا تب ہوگا۔۔۔ اب تو یہاں کبھی بھی آپ کے لیے میدان حشر سجایا جاسکتا ہے۔ نام نہاد سیلبریٹیز کو ان چیزوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بدنام ہو کر نام کمانا سب سے آسان طریقہ ہے لیکن عزت دار گھرانوں کے لڑکے لڑکیاں ایسے میں خودکشی پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ جب کہا جاتا ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے تو اس پر غور کرنا چاہیے کہ کیونکر ہے۔

اخلاقی زوال سے نکلنے کے لیے نکاح کو فروغ دینا ہوگا اور ایک سے زیادہ شادیوں کو taboo نہ بنایا جائے تو ہی اس بے راہ روی کا تدارک ممکن ہے بصورت دیگر یہ عریانی و فحاشی کا طوفان ہماری نسلوں کو بہا لے جائے گا اور اشرف المخلوقات کو جانوروں سے بدتر بنادے گا جسکی ابتدا ہوچکی ہے !!!

یہ زوال بھی کمال ہے۔نغمئہ بےصدا

تحریر: زیمشا سید