نئی دہلی :’بھارت رہنے کے قابل نہیں رہا‘متنازع شہریت قانون پر ہندو طالبہ کے ردعمل سے انقلابی صورت حال بن گئی ،ادھر اطلاعات کےمطابق بھارتی پارلیمنٹ سے منظوری اورصدر کے دستخط کے بعد قانون بن جانے والے بھارت کے متنازع ’شہریت ترمیمی بل 2019‘ کے بعد بھارت بھر میں مظاہرے جاری ہیں۔

دارالحکومت نئی دہلی کی سب سے بڑی یونیورسٹی کا درجہ رکھنے والی قدیم ترین یونیورسٹی ’ جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی‘ کے طلبہ کی جانب سے سب سے زیادہ اس بل پر مظاہرے کیے گئے اور پولیس نے طلبہ کے ان مظاہروں کو روکنے کے لیے اپنی حدود ہی پار کرلیں۔

بھارتی نشریاتی ادارے ’این ڈی ٹی وی‘ کے مطابق متنازع شہریت قانون پر جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے طلبہ کی جانب سے کیے جانے والے مظاہروں کو روکنے کے لیے پولیس کی بھاری نفری غیر قانونی طور پر یونیورسٹی میں داخل ہوئی اور بڑے پیمانے پر طلبہ کو ہراساں کرنے سمیت انہیں تشدد کا نشانہ بنایا۔

رپورٹ کے مطابق پولیس کے تشدد کا نشانہ بننے والوں میں نہ صرف مسلمان اور مرد طلبہ شامل ہیں بلکہ پولیس کی جانب سے بڑی تعداد میں طالبات کو بھی ہراساں کرنے اور تشدد کا نشانہ بنائے جانے کے واقعات پیش آئے۔این ڈی ٹی وی کے مطابق جامعہ ملیہ کی ہندو طالبہ انوگیا نے یونیورسٹی کے باہر روتے ہوئے میڈیا کو پولیس کے ظلم کی داستان سنائی۔

پولیس کی جانب سے غیر قانونی طور پر طلبہ کے ہاسٹلز سمییت طالبات کی ہاسٹلز میں داخل ہونے کے خلاف نہ صرف مسلمان بلکہ ہندو طالبات نے بھی مظاہرہ کیا اور بتایا کہ کس طرح پولیس نے ہاسٹلز میں گھس کر طالبات کو ہراساں کیا۔

Shares: