ٹھٹھہ کی تاریخی مسجدکی بجلی کئی روز سے منقطع، وضو کا پانی نایاب

0
71

ٹھٹھہ :ٹھٹھہ کی تاریخی مسجد شاہ جہاں کی بجلی 4 دن سے منقطع ہے۔اطلاعات کےمطابق تاریخی مسجد شاہ جہاں کے پیش امام کا کہنا ہے کہ بجلی منقطع ہونے سے وضو کے لیے پانی نایاب ہو چکا ہے۔

مسجد کے پیش امام نے انتظامیہ کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ یہ تاریخی مسجد محکمہ آرکیالوجی اور ثقافت کے زیر انتظام ہے لیکن اس کے باوجود مسجد کی بجلی منقطع کر دی گئی ہے۔ایس ڈی او حیسکو کے مطابق شاہ جہاں مسجد پر 8 لاکھ روپے کے بقایاجات ہیں، کئی بار کی یقین دہانی کرانے کے باوجود ادائیگی نہیں کی گئی جس پر بجلی منقطع کی گئی۔

تاریخ دانوں کے مطابق 1647 میں شاہ جہاں مسجد کی تعمیرات کا کام مکمل ہوا جس میں ہزاروں مزدوروں نے حصہ لیا۔ شاہ جہاں مسجد اور لاہور کی بادشاہی مسجد مغل دور کے فن تعمیرات کی بہترین مظہر ہیں۔1970 میں ناقص تعمیراتی کام کی وجہ سے ٹھٹھہ کی شاہی مسجد کی عمارت کو ناقابل تلافی نقصان بھی پہنچا تھا۔

سندھ کے جنوبی علاقے ٹھٹھہ کی شاہ جہاں مسجد 6300 مربع فٹ رقبے پر تعمیر ہے، اذان کی آواز مسجد کے کونے کونے میں لاؤڈ اسپیکر کے بغیر باآسانی سنی جاتی تھی لیکن 18ویں صدی کی مسجد کی مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے متواتر یہ تباہ حالی کی جانب بڑھ رہی ہے۔

ٹھٹھہ کے گورنمنٹ کالج کے پرنسپل محمد علی مانجی بتایا کہ شاہ جہاں مسجد اب اپنی اصلی حالت میں برقرار نہیں ہے۔ محمد علی مانجی کا کہنا تھا کہ مسجد میں بہت ساری تبدیلیاں کی گئی ہیں، جس کی وجہ سے مسجد کی خوبصورتی اور رعنائی ماند پڑ گئی ہے۔انہوں نے بتایا کہ مسجد کا ساؤنڈ سسٹم بھی پہلے کی طرح نہیں رہا، مسجد میں کئی جگہ ٹوٹ پھوٹ ہو چکی ہے۔

اس حوالے سے سندھ آرکیالوجی ڈپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر قاسم علی قاسم کا کہنا تھا کہ آثار قدیم کے ماہرین کی عدم دلچسپی کی وجہ سے مسجد زبوں حالی کا شکار ہے۔آرکیالوجی ڈپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر کے مطابق مسجد کا داخلی راستہ تعمیراتی کام کی وجہ سے خراب ہوا، جن پتھروں پر قرآنی آیات لکھی ہوئی تھیں، ان کو نکال کر کراچی میں نیشنل میوزیم میں رکھ دیا گیا۔

قاسم علی قاسم کا دعویٰ تھا کہ بعد ازاں ان پتھروں کو پھینک دیا گیا۔انہوں نے بتایا کہ سیوریج کے پانی کی وجہ سے اس کی بنیادیں کمزورہونے کا خدشہ ہے۔

شاہ جہاں مسجد بدحالی کا شکار ہونے کے باوجود سیر و تفرویح کے شوقین دور دور سے یہاں حاضری دینے ضرور آتے ہیں، مسجد کے باقی ماندہ خوبصورت حصوں میں تصاویر لیتے ہیں جبکہ مسلمانوں کی اس قدیم عبادت گاہ کی رعنائی میں گم ہوجاتے ہیں۔تاریخی مسجد ہونے کے باوجود اس کی قیمتی ورثہ کو بچانے کے لیے ابھی تک کوئی منصوبہ سامنے نہیں آ سکا ہے۔

Leave a reply