وہ آئے ہیں ذرا ان سے ہم اپنا حال کہہ لیتے
ہمارے درد دل میں کچھ کمی ہوتی تو اچھا تھا
میر یٰسین علی خاں
نواب میر یٰسین علی خان 4 جلائی 1908ء کو حیدرآباد میں ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے دادا نواب میر حسن علی خاں دو گانوں کے جاگیردار اور داغ دہلوی کے شاگرد اور دوست بھی تھے۔ نواب میر یٰسین علی خان نے شروعاتی تعلیم حیدرآباد سے حاصل کی اور آگے کی تعلیم کے لئے وہ علی گڑھ چلے گئے۔ جہاں سے انہونے بی اے کی ڈگری 1929ء میں اور ایم اے کی ڈگری 1931ء میں حاصل کی۔ اس کے بعد وہ حیدرآباد واپس آ گئے اور انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ میں ملازمت اختیار کی۔ وہ 1971ء میں اس ملازمت سے ریٹائر ہوئے۔
نواب میر یٰسین علی خان پدم بھوشن سے نوازے گئے ۔ وہ بزم ادب اردو حیدرآباد اور علی گڑھ اولڈ بوائز ایسوشیشن لندن کے صدر رہے۔
نواب میر یٰسین علی خان 1996ء کو لندن میں وفات پا گئے۔
منتخب کلام
میں تم کو پوجتا رہا جب تک خودی میں تھا
اپنا ملا سراغ مجھے بے خودی کے بعد
کیا رسم احتیاط بھی دنیا سے اٹھ گئی
یہ سوچنا پڑا مجھے تیری ہنسی کے بعد
گھبرا کے مر نہ جائیے مرنے سے فائدہ
اک اور زندگی بھی ہے اس زندگی کے بعد
آئے ہیں اس جہاں میں تو جانا ضرور ہے
کوئی کسی سے پہلے تو کوئی کسی کے بعد
اے ابر نو بہار ٹھہر پی رہا ہوں میں
جانا برس کے خوب مری مے کشی کے بعد
مرتے تھے جس پہ ہم وہ فقط حسن ہی نہ تھا
یہ راز ہم پہ آج کھلا عاشقی کے بعد
اے موسم بہار ٹھہر آ رہا ہوں میں
دامان چاک چاک کی بخیہ گری کے بعد
…
کہتے ہیں جس کو موت ہے وقفہ حیات کا
دریائے زیست ایک ہے ساحل جگہ جگہ
دیر و حرم سے دور ہے شاید ترا مقام
یاں ورنہ ہر قدم پہ ہے منزل جگہ جگہ
خوش رنگ و خوش نگاہ خوش اندام خوب رو
پھیلے ہوئے ہیں شہر میں قاتل جگہ جگہ