ٹھٹھہ :سندھ کے بہادر سپہ سالارہوش محمد شیدی المعروف ہَوشُو شیدی کا آج یوم شہادت ہے

ٹھٹھہ،باغی ٹی وی ( نامہ نگار راجہ قریشی )ہوش محمد شیدی سندھ پر تالپور خاندان کی حکمرانی میں بہادر سپہ سالار تھے۔ ہوش محمد شیدی میانی کی جنگ کے میدان کے قریب دبی کے میدان میں انگریزوں کے خلاف اپنے وطن کے دفاع میں بڑی بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ اس کی زبان پر ایک ہی نعرہ تھا کہ مرویسوں مرویسوں پر سندھ نہ ڈیسوں۔ یہ نعرہ سرائیکی زبان میں ہے۔ تالپور حکمران سرائیکی اور سندھی بولتے تھے۔ ہوش محمد کی پرورش تالپوروں کے ہاں ہوئی تھی اس لیے وہ سرائیکی بھی بولتے تھے۔ ہوش محمد کا تعلق شیدی گھرانے سے تھا۔وہ جوانی میں فوج میں بھرتی ہوئے۔ بڑے نڈر اور جوش والے تھے۔ انگریزوں سے جنگ کے وقت یہ بڑے جوش اور طیش میں تھے۔
تفیلات کے مطابق ہوش محمد شیدی نے 24 مارچ 1843ع میں دوآبہ حیدرآباد کے میدان میں انگریزوں سے لڑتے ہوئے اپنی جان دھرتی پر نچھاور کردی.
ہوش محمد سندھ کے تالپور حکمرانوں کی فوج کے سپاہی تھے، جنہیں بے پناہ بہادری اور بے مثال حب الوطنی کے سبب آج تک یاد کیا جاتا ہے.
ہوش محمد شیدی کو تالپور حکمرانوں کے توبخانے کا نگران مقرر کیا گیا، آپ کو بندوق چلانے کی بہترین تربیت حاصل تھی.
مولائی شیدائی لکھتے ہیں کہ آپ میروں کی فوج میں بھرتی ہوئے اور اور نامور جانباز توبچی رہے، جنہوں نے آخر دم تک ایمانداری اور بہادری کا ثبوت دیا اور دشمن سے لڑتے ہوئے میدانِ جنگ میں شہید ہوئے.
انگریزوں نے جب حیدرآباد پر حملہ کیا اور 17 فروری 1843ء میں حیدرآباد کے قریب میانی کے میدان میں جنگ ہوئی اس دوران ہوشو توپخانے پر نگران مقرر تھے، جنگ کے دوران گولوں کی برسات ہوتی رہی اور اسی دوران ایک گولا تالپوروں کے بارود خانے پر لگا، جس وجہ سے سارا بارود جل گیا لیکن اس کے باوجود ہوشو بہادری سے لڑتے رہے.
17 فروری 1843ء کی میانی کی جنگ کے بعد دھرتی کے سرفروشوں نے مادرِ وطن کی آزادی کے لیے ایک بار پھر انگریز سے ٹکر لی اور اس بار جرنیل ہوش محمد شیدی کی قیادت میں جنگ حیدرآباد کے قریب دوآبہ کے مقام پر لڑی گئی، جس کے بعد سندھ پر باقاعدہ برطانوی راج شروع ہوا. اسی جنگ میں ہوش محمد شیدی نے "مرویسوں مرویسوں پر سندھ نہ ڈیسوں” کا نعرہ بلند کیا اور یہ نعرہ سندھ کی تاریخ کا ایک حصہ بن گیا.
ہوش محمد جب شہید ہوئے تو انہوں نے اپنی تلوار زمین پر نہ گرنے دی، روح پرواز کر جانے کے بعد بھی تلوار ہاتھ میں دیکھ کر انگریز فوج حیران ہوئی اور ہوش محمد شہید کو جھک کر سلام پیش کیا اور پورے فوجی اعزاز کے ساتھ آپ کی تدفین کی گئی. دشمن فوج کی سلامی اور اعزاز کے ساتھ تدفین سے ہوش محمد شیدی کی جرات و بہادری کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، انہوں نے کیسی دلیری سے انگریز فوج کا مقابلہ کیا ہوگا کہ دشمن بھی جھک کر سلام پیش کرنے اور اعزاز کے ساتھ تدفین پر مجبور ہوا-
جنرل چارلس نیپئر اپنی کتاب "سندھ کے فاتح” میں لکھتے ہیں کہ جب حیدرآباد کی جنگ ہو رہی تھی تو میں نے دیکھا کہ ایک شخص جو بے جگری سے لڑ رہا تھا، وہ ایسے لگتا تھا کہ جیسے بنا ہی جنگ کے لیے ہے. اس کی جنگ کا انداز دیکھ کر لگتا کہ جیسے نپولین کی فوج کا تربیت یافتہ سپاہی لڑ رہا ہے.
آپ کی قبر کے متعلق تاریخ دانوں کی مختلف رائے ہے، کچھ تاریخ دان کہتے ہیں کہ ہوش محمد شہید کو اعزاز کے ساتھ حیدرآباد کے پکا قلعہ میں دفن کیا گیا جبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ آپ کو دوآبہ کے مقام پر ہی دفنایا گیا جہاں حکومتِ سندھ کی طرف سے آپ کا مقبرہ بھی تعمیر کروایا گیا ہے.
حیدرآباد پریس کلب اور گول بلڈنگ گاڑی کھاتہ کے قریب شہید ہوشو شیدی کی یادگار کے طور پر مجسمہ بھی نصب ہے جبکہ حیدرآباد میں ہی ہوشو شیدی کے نام سے ایک فلائی اوور بھی منسوب ہے.
24 مارچ ہوش محمد شیدی کی شہادت کا دن ہے، آج کا دن اپنی دھرتی سے وفا کرنے اور وقتِ ضرورت اپنی جان نچھاور کرنے کا درس دیتا ہے.

Leave a reply