شہبازاکمل جندران۔۔۔
انویسٹی گیشن۔۔۔۔
پاکستان میں ایم پی اے اور ایم این ایز غریبوں کے حق پر ڈاکا کیسے ڈالتے ہیں۔
پنجاب اور پاکستان کے سرکاری ہسپتالوں میں غریب مریضوں کامفت علاج زکواۃ فنڈ سے کیا جاتا ہے۔تاہم بہت سے ایم پی اے اور ایم این ایز بھی سرکاری ہسپتالوں سے علاج کرواتے ہیں۔اور دوران علاج جو اخراجات آتے ہیں۔وہ قومی خزانے سے واپس لے لیتے ہیں۔
اگر یکم جنوری 2017سے اپریل 2019تک کا پنجاب اسمبلی کا ریکارڈ دیکھیں تو 17مختلف ایم پی ایز نے اس عرصہ کے دوران مجموعی طورپر 60لاکھ 37ہزار 674روپے علاج معالجے اور ادویات کے نام پر قومی خزانے سے حاصل کئے۔
ان میں۔۔۔۔۔۔۔ایم پی اے فاطمہ فریحہ نے قومی خزانے سے 80ہزار 500روپے،اشرف علی انصاری نے 99ہزار400روپے، انعام اللہ خان نیازی نے ایک لاکھ 67ہزار 193روپے،شمیم اختر عرف شہزادی کبیر نے 30ہزار 429روپے،سعدیہ سہیل رانا نے 4لاکھ 20ہزار 687روپے،
جعفر علی ہوچا نے ایک لاکھ 16ہزار 250روپے، عارف محمود گل نے 2لاکھ 26ہزار 183روپے، عارف محمود گل نے ہی مزید 33لاکھ 28ہزار 470روپے،سردار شہاب الدین خان نے 11لاکھ 70ہزار روپے، راحیلہ خادم حسین نے ایک لاکھ 68ہزار 329روپے، پیٹر گل نے 23ہزار 167روپے،میاں جلیل احمد نے 19ہزار 825روپے اور ایم پی اے جاوید اختر نے 16ہزار 945روپے قومی خزانے سے حاصل کئے۔
متذکرہ بالا اراکین پارلیمنٹ نے اس عرصہ کے دوران قومی خزانے سے مجموعی طور پر 60لاکھ 37ہزار674روپے نکلوائے۔یہ پیسے ایسی ادویات کے نام پر حاصل کئے گئے جو سرکاری ہسپتالوں میں موجود نہ تھیں۔حالانکہ اراکین پارلیمنٹ کی اکژیت سرکاری ہسپتالوں پر قطعی اعتبار نہیں کرتی اور نہ ہی ان ہسپتالوں سے علاج کرواتے ہیں۔
بعض پارلیمنٹرین پرائیویٹ علاج کروانے کے بعد سرکاری ہسپتالوں سے ادویات حاصل کرتے ہیں۔اور ہسپتالوں کی انتظامیہ نے جو رقم غریب مریضوں کے لیے لوکل پرچیز کے نام پر مختص کررکھی ہوتی ہے۔اسے استعمال میں لایا جاتا ہے۔جبکہ بعض پارلیمنٹیرین پرائیویٹ ڈاکٹروں سے علاج کرواتے ہیں۔اور ان کے لکھے نسخے کو دوبارہ سے سرکاری ہسپتال کے ڈاکٹر سے لکھوا تے ہیں تاکہ میڈیسن اور علاج معالجے پر آنے والے اخراجات قومی خزانے سے واپس لیئے جاسکیں۔