دنیا میں بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جن پر کسی ملک کی حکومت کا نہ تو کوئی کنٹرول ہوتا ہے اور نہ بس چلتا ہے۔ مثلاً سونا۔ پٹرولیم مصنوعات اور ڈالر۔ ایک وقت ایسا بھی آیا تھا کہ تیل کمپنیاں یہ اعلان کرنے پر مجبور ہو گیئں کہ ہم سے ادھار میں تیل لے لیں اور جب جی چاہے پیسے دے دیں۔ اس سہولت سے بہت سے ملکوں نے فائدہ اٹھایا۔ اسی طرح وہ بھی دور تھا۔ جب پاکستان میں سونا 6 ہزار روپے تولہ بھی تھا۔ ڈالر 40 روپے کے برابر بھی پاکستان میں رہا ہے۔ مگر پچھلے چند سالوں سے یہ تینوں چیزیں مسلسل اوپر جا رہی ہیں۔ سونا تو اب ہاتھوں سے نکل چکا ہے۔ اور متوسط اور غریب لوگوں نے سونے کے بارے میں سوچنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ پوری دنیا میں مہنگائی کی شدید ترین لہر آ چکی ہے۔ اور پاکستان بھی اسی دنیا کا حصہ ہے۔ اور اس مہنگائی کا شکار ہے وجہ اس کی سونے کی بڑھتی قیمت ہو۔ پٹرولیم مصنوعات کا اوپر جانا ہو۔ ڈالر کی اڑان ہو۔ یا کرونا وائرس کے اثرات۔ مگر مہنگائی 90 درجے کے زاویے کے ساتھ اوپر جا رہی ہے۔ مہنگائی سے دنیا کے سبھی  ممالک متاثر ہوئے ہیں۔ مگر پاکستان میں اس کا رونا پیٹنا سب سے زیادہ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مہنگائی دنیا بھر میں بڑھی ہے۔ تو دیگر ممالک میں زیادہ ردعمل کیوں نہیں دیکھا جارہا۔ اس کی وجہ یہ ہے۔ کہ وہاں کی حکومتوں نے اپنے عوام کو مہنگائی کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا۔ حالات واقعات کو دیکھتے ہوئے ان ممالک نے اپنے عوام کو سستی اشیائے ضروریہ فراہم کرنے کے لئے سبسڈی دی ہے لوگوں کے دکھوں میں وہ حکومتیں شریک ہوئی ہیں۔ انہوں نے مہنگائی کے اثرات کو کم سے کم رکھنے کے لیے حکمت عملی بنائی ہے۔ انہوں نے اپنے اداروں کو مضبوط کر کے ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کے خلاف سخت ایکشن  لیے ہیں لوگوں کو براہ راست امداد فراہم کرکے ان کے معاشی مسائل کو حل کرنے کی عملی کوشش کی ہے۔ ان ممالک نے اپوزیشن کو ساتھ ملا کر مشترکہ کوشش کر کے اپنے عوام کو مہنگائی کے عذاب سے نکالنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اس طرح کا کوئی بھی اقدام سامنے نہیں آیا جس سے یہ تاثر بھی ملے کہ حکومت اپنے عوام سے مخلص ہے۔ وزیراعظم کی سطح پر تمام ملبہ ڈالر۔ سونے پٹرولیم۔ اور درآمدات پر ڈال دیا گیا ہے۔ اور عوامی ریلیف سے منہ پھیر لیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے ملک میں جنگل کا قانون تیزی سے پھیل رہا ہے جس کا جب جو جی چاہتا ہے وہ کر گزرتا ہے۔ اب تو روزانہ کی بنیاد پر من مانے ریٹ بڑھائے جا رہے ہیں۔ کوئی کسی کو پوچھنے والا نہیں۔ پاکستانی عوام ذہنی مریض بن چکے ہیں۔ حکومت کی ساری کی ساری توجہ اپوزیشن کو دبانے میں مرکوز ہے۔ بھرپور کوشش جاری ہے کہ کسی بھی طرح پانچ سال پورے کئے جائیں۔ ملک چاہے دس سال پیچھے چلا جائے اس کی کسی کو کوئی پرواہ نہیں۔ جب عوام سے توجہ ہٹ جائے اور معاملہ ذات کی طرف چلا جائے تو بربادی کا ایک طوفان آ تا ہے اور سب کو بہا لے جاتا ہے۔ عملی طور پر ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ غریب کا کوئی پرسان حال نہیں۔ وزراء کے جاہلانہ بیانات نے اس حکومت کی غیر سنجیدگی کو اور زیادہ واضح کر دیا ہے۔ ان تمام حالات کے پیش نظر یہ بات بڑے آ رام سے کہی جا سکتی ہے کہ ملک میں حکومتی مہنگائی زیادہ اور دنیاوی مہنگائی کم ہے۔

@joinwsharif7

Shares: