ہم ہار نہ جائیں سے, ہم جیتیں گے!!! — سیدرا صدف
ہم ہار نہ جائیں سے, ہم جیتیں گے” کی سوچ نے پاکستان کے موجودہ کھلاڑیوں میں لڑنے کا جذبہ پیدا کیا ہے۔۔۔بھارتیوں کی اصل پریشانی یہ ہے کہ وہ پاکستان ٹیم کدھر ہے جو بڑے ناموں کے باوجود گھبراہٹ سے آدھا میچ پہلے ہی ہاری ہوتی تھی۔۔۔۔
اگر آپ صرف 2012 سے 2020 تک پاک بھارت بڑے مقابلوں کی بات کریں تو 98 فیصد میچز میں آدھا مقابلہ وہیں ہارا محسوس ہوتا تھا جب پاکستانی کپتان ٹاس کے لیے آتے تھے۔۔ہم ہار نہ جائیں کا خوف نظر آتا تھا۔۔۔۔
ٹیم منیجمنٹ اور کپتان کو ٹیم میں لڑنے کا جذبہ لانے کا کریڈٹ جاتا ہے۔۔۔ میچ کے نتیجے سے زیادہ یہ اہم ہوتا ہے کہ ٹیم لڑے۔۔۔ ثقلین مشتاق, بابر, ٹیم کے سنیئر کھلاڑی رضوان,شاداب میچ سے پہلے اور میچ کے دوران پریشر اچھا ہینڈل کرتے ہیں اور ٹیم کا مورال بھی اٹھائے رکھتے ہیں۔۔۔
ایشیا کپ کے پاک بھارت دونوں میچز میں اگر کپتانوں کی بات کریں تو روہت شرما کے مقابلے میں برابر اعظم نے جونیئر ہونے کے باوجود پریشر کو زیادہ بہتر ہینڈل کیا۔۔۔دوسرے میچ میں جب بھارتی بلے بازوں نے چڑھائی کی بابر پریشان نظر آئے لیکن خوف زدہ یا حواس باختہ نہیں ہوئے۔۔۔۔مس فیلڈنگ پر بھی مجموعی طور پر برداشت دیکھائی۔۔
مشکل آنے پر پریشانی فطرتی ہے۔۔لیکن اس پریشانی کا سامنا کرنا اور نکلنا دلیری ہے۔۔۔بابر نے مڈل اوورز میں بالرز سے بخوبی کام لیا اور بالرز نے بھی کپتان کی بھرپور لاج رکھ کر بھارتی مڈل آرڈر کو چلتا کیا۔۔۔
جب ٹیم ہارتی ہے تو تنقید کا مرکز زیادہ تر کپتان رہتا ہے اس لیے جیت پر کپتان کو درست فیصلوں کا کریڈٹ بھی کھل کر دینا چاہیے۔۔۔۔
نواز کا بیٹنگ آرڈر پروموٹ کرنے پر بابر کی بہت تعریف ہوئی ہے۔۔۔بھارت کے خلاف گروپ میچ ہارنے کے باوجود پاکستانی سپوٹرز نے بابر اور ٹیم کو بیک کیا اور کھلاڑیوں نے بھی اس محبت کا جواب میچ جیت کر دیا۔۔اب جب بابراعظم ٹی ٹوئینٹی فارمیٹ میں وقتی خراب فارم سے دوچار ہیں پاکستانی سپوٹرز ان کے لیے دعاگو ہیں۔۔۔۔ہماری ڈیمانڈ اپنی ٹیم سے یہ ہی ہے کہ لڑو مقابلہ کرو نتائج اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔۔۔