اُٹھ گئی ہیں سامنے سے کیسی کیسی صورتیں
رویے کس کے لئے کس کس کا ماتم کیجئیے
رویے کی تعریف کی جائے تو اس سے مُراد ایک فرد کا دوسرے فرد کے ساتھ طرز عمل اسی طرح سماجی رویے سے مُراد معاشرے کے افراد کا آپس کا رویہ اور طرز عمل. انسان ایک سماجی حیوان ہے اسکا اپنی تمام ضرورتوں کے لئیے دوسرے پر انحصار رکھنا ایک عام بات ہے یہاں ہم سب ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں ہر طرح کے معاملے میں کوئی بھی فرد اپنی تمام ضروریات کو خود پورا نہیں کر سکتا نہ ہی اپنے تمام مسائل کا خود تدارک کر سکتا ہے اس لئے وہ معاشرے کے دوسرے افراد پر انحصار کرتا ہے اور یہ انحصار ایک فطری بات ہے اور اس سے بڑھ کے ضرورت بھی. مگر مسئلہ انسان کی سماجی ضرورت کا نہیں رویے کا ہے ہم سب کا طرز عمل ایک دوسرے کی جانب نامعلوم کس حد تک ناقابل برداشت ہے.
جس نفسا نفسی کا ذکر قیامت کے روز سے جُڑا ہے وہ ہمیں آج بھی دیکھنے کو ملتی ہے ہم انسان ایک دوسرے کے بہترین دوست اور بدترین دشمن ہیں ہماری دوستی بھی مشروط دوستی ہے جو کہ دشمنی کے زمرے میں ہی آتی ہے
رویے دو طرح کے ہوتے ہیں مثبت یا منفی. مثبت روئیے دوستی، رشتہ داری، خلوص، محبت، عاجزی و انکساری، ایثار، رحم دلی، انصاف پسندی، اتفاق اور ملنساری سے مربوط ہیں اور دوسری طرف منفی رویہ جو کہ نفرت، حقارت، بدتمیزی، شر انگریزی، تنقید برائے تنقید، حق تلفی اور نا انصافی جیسے عناصر پر مشتمل ہے اور اگر ہم اپنے معاشرے کا بغور جائزہ لیں تو منفی رویوں کی زیادتی نظر آتی ہے محرک کوئی بھی ہو آج ہم سب ایک دوسرے کے لیے ناقابل برداشت ہیں دنیا کا وہ انسان جسے دنیا میں امن و سکون قائم کرنے کے لئے بھیجا گیا تھا آج اس دنیا کو منفی رویوں کے تِھرل سے ہلا کے رکھتا ہے.
وہ دنیا جس کو رشتوں سے، محبت سے آراستہ کر کے انسان کو دیا گیا تاکہ اسکو جینے کی وجہ ملے اُسے ایک سماج دیا گیا تا کہ وہ اس سماج میں لوگوں سے میل ملاقات کرے اپنی ضرورت پوری کرے اور نا صرف اپنی بلکہ خود سے منسلک لوگوں کی اور باقی سماج کی مگر یہ کیا وہ انسان جس کو احسن تقویم انداز سے پیدا کر کے زمین پہ اُتارا گیا اُس نے تو وہ کیا جو فرشتوں نے کہا کہ یہ زمین میں فساد برپا کرے کا اور خون خرابا کرے گا. آج نے انسان نے اس بات کو سچ کر دیا اور نہ اپنے سگے کو بخشا نہ پرائے کو. زمین، زر، زن کے پیچھے اپنے سگے بھائی کا گلہ کاٹ ڈالا. دولت کی تمنا میں اتنا اندھا ہوا کہ جائز اور ناجائز کا فرق بھول گیا اور اُس غریب کا لہو بھی چوس کر پی گیا کہ جس کہ پاس شاید اولاد کو دینے کو وہی خون کےچند قطرے تھے جن کی گرمائش سے وہ زندہ تھا اور پھٹے ہاتھوں سے کما کر اولاد کے منہ میں چند لقمے ڈال رہا تھا. یہ انسان ہوس پرستی کا اتنا مائل ہوا کہ اسے اپنی جائی بیٹی نہ نظر آئی کجا کہ معصوم کسی اور کی بیٹی تو دُور. منافقت نے ایسا اسے گھن چکر بنایا کہ دو مُنہ، دوہرا معیار، دوہری پالیسی بنانا جیسے اسکی خُدادا صلاحیت ہو. ناانصافی اور حق تلفی میں تو اس نے گینیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ میں نام درج کروایا. اقتدار کے لالچ میں فرعون بن بیٹھا اور ذرا جہاں اسے اقتدار ملا اس نے وہاں اپنی فرعونیت ثابت کی بھلے وہ ایک دروازے پہ بیٹھنے والے چوکیدار کی کرسی ہی کیوں نہ ہو اس نے خُوب استعمال کیا.
زمین کا ایک ٹُکڑا جو اس نے ملک کے نام پہ حاصل کیا اسکا بس نہ چلا کہ اُسکو تو بیچ کر کھا جائے، کسی یتیم کا مال ہڑپ کرنے کا موقع ملا تو اُس میں بھی خوب کاریگری دکھائی. تنقید برائے تنقید کے نام پر اگلے کی دھجیاں اُڑا دیں اور ایسی اُڑائی کہ اُسکی عزت تک کا خیال نہ کیا. شر انگیزی کی ایسی وبائیں پھیلائیں کی ان کے اثر سے کوئی محفوظ نہ رہ سکا. نفرت اور حقارت میں تو اس نے جھنڈے گاڑے اپنے من کی تمام کی تمام کالک دوسرے کے مُنہ پہ مل دی اور اتنی سیاہ کالک کہ اگلا ساری زندگی اُسکو سو لیموں کی طاقت والے لیمن میکس بار سے بھی دھوئے تو اُترنے کا نام نہ لے.
یہ سب کر کے بھی یہ انسان کہتا ہے کہ مجھے انصاف نہیں ملا اور انسان کون ہم، آپ اور میں. میں اس معاشرے سے الگ نہیں اور نہ ہی کوئی دوسری دنیا کی باسی مجھے پروان بھی اسی معاشرے نہ چڑھایا ہے میرے اندر بھی یہی خصلتیں ڈالی ہیں مگر مجھے اتنا معلوم ہے کہ ان خصلتوں کو دبانا کیسے ہے اور اس معاشرے کو سدھارنے کا عزم کرنا ہے. ہماری ان خصلتوں میں ہمارے آنے والی نسلیں مزید اضافہ کرتی آ رہی ہیں اور اس بات کا ثبوت دے رہی ہیں کہ ہم نے اپنے آباؤ اجداد کے نقش قدم یہ سیمنٹ سے بھگو بھگو کہ قدم رکھے ہیں کہ کہیں یہ قدم دھندلا نہ جائیں ہمارے منفی رویوں کی کشش ہماری نئی نسل کو ایسے کھینچ کے لائی جیسے بین کے پیچھے ناگ.
منفی رویوں کی اس فہرست میں ایسا کوئی رویہ نہیں جس کو اپنانے میں ہم نے بازی نہ لی ہو بلکہ جناب ہم نے تو مقابلے بازی کی ہے کہ کہیں کوئی دوسرا ہم سے آگے نہ نکل جائے اور جہنم اور ناکامی کا جو ایوارڈ ہم نے لینا تھا کوئی اور نہ لے اُڑے اور ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں. مثبت رویوں کو تو ہم نے مکھن لگانے اور چُونا لگانے کو رکھا تا کہ بروقت ضرورت انکا استعمال ہمیں فائدہ پہنچا سکے بھئی اب ہم سارے کام تو منفی رویوں سے نہیں نا کر سکتے ہو سکتا ہے کسی کو زہر نہ دینا پڑے اور وہ شہد یا گُڑ سے ہی مرتا ہو تو کیا اُسکو زہر سے مارنا. مثبت رویے ہمارے لیے نہیں ہیں یہ دوسروں کے لیے ہیں تا کہ وہ ہم سے مثبت انداز میں پیش آئیں وگرنہ ناانصافی ہو جائے گی ہمارے ساتھ. اور یہ کہاں کا اصول ہے جو دو وہی لو. اگر ہم اسکے ساتھ منفی انداز سے پیش آ رہے ہیں تو اسکو چاہیے کہ کچھ نیا کرے کچھ یونیق ایک جیسا ردعمل نہ دے وہ کچھ تو مثبت کرے ہمارے ساتھ.
رویوں کا مطلب صرف عمل تک رہنا نہیں ہے ہماری انٹینشنز، ہماری دوسرے کے مطلق سوچیں، خیال یہ سب بھی رویے کا حصہ ہے کیوں کہ جو ہم خیال کرتے ہیں وہی ہم سوچتے ہیں اور جو سوچتے ہیں ویسا ہی عمل کرتے ہیں تو یہ تین کونے والا ماڈل رویہ اور رویے کے اجزاء ہیں جن میں سے ہمیں تو صرف ہمارا ردعمل سمجھ میں آتا ہے باقی کونسا ہم نے کسی کو دکھانا ہے یا کسی کو کونسا پتہ چلنا کہ ہم کیا سوچتے ہیں دوسرے کے بارے. جب وقت آئے گا عمل کا تو تب دیکھیں گے کہ مکھن یا چونا لگانا ہے یا کالک لگانی ہے.
ہم سب بھول گئے کہ ہمارے یہ روئے کسی کے لیے کتنے تکلیف دہ ہیں کبھی سوچیے گا اُس انسان نے بارے جس کا آپ نے حق کھایا وہ حق صرف پیسوں کا نہیں ہوتا کسی لائن میں کھڑے شخص کو اُسکے نمبر پہ باری نہ دینا بھی حق مارنا ہے اپنے تعلق کی بنیاد پہ کام نکلوا لینا بھی حق مارنا ہے اور اس کی کئی اور صورتیں بھی ہیں جو ہمیں سمجھ نہیں آتی کیونکہ ہم موٹی عقل رکھتے ہیں. کبھی سوچیے گا اُس انسان کے بارے جس کا دل آپ نے باتوں سے چھلنی کیا تنقید سے چھلنی کیا ہو. اور سوچیے گا اس عورت کے بارے جو آپکی نام نہاد مردانگی اور اُٹھی گہری غلیظ نظر کی وجہ سے زمین میں گَڑ گئی ہو. کبھی سوچیے گا اُس باپ کے بارے جس کی حیثیت کوڑی کہ کہ تھی مگر اپنی بیٹی کو جہیز سے تول کے آپکے گھر بھیجا اور آپ نے اُسکی کردار کشی کر کے اُس پہ طلاق کا دھبہ لگایا. کبھی سوچیے گا اس انسان کے بارے جسکو آپکی ضرورت تھی اور حیثیت رکھتے ہوئے اپ نے مدد نہ کی اور وہ ہار گیا. کبھی سوچیے گا اُس کے بارے جس کا جینا آپ نے اتنا مُحال کیا کہ اس نے جینے سے مر جانے کو ترجیح دی اور کچھ ایسے بھی ملیں گے جو اپنا ذہنی توازن کھو چکے ہوں گے. کبھی سوچیے گا اس کے بارے جسے صرف آپکے ایک ہاتھ یا ایک تھپکی کی ضرورت تھی اور آپ بے خبر رہے اور آپکی بے خبری نے اُسکی جان لے لی.
خُدارا سمجھیں اپنے رویوں کو دوسروں کے رویوں کو ضروری نہیں کہ ہر کوئی آپکو آ کر بتائے مجھے یہ مسئلہ ہے آپ سے آپکے اس رویے نے میرا دل دُکھایا خود اپنے رویوں کو مشاہدہ کرو اور بے لوث ہو جاؤ مت دیکھو کسی کے لیے کتنا کر سکتے ہو جتنا کر سکتے ہو اُتنا تو کرو اور کچھ نہ کر سکے تو ایک تھپکی، ایک مسکراہٹ، ایک امید دے دینا یہ بھی بڑا کام آئے گی
تحریر کا مقصد دل آزاری نہیں بلکہ معاشرے کی سیاہ تاریک صورت کو سامنے لانا تھا باقی اچھائی آج بھی موجود ہے اور بلاشبہ موجود ہے مگر اِس بُرائی کو بھی تو سویرے میں بدلنا ہے میں نے اور آپ نے نہیں بلکہ ہم نے.
ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کے خلاف
گر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی
)
برائے تنقید واصلاح Armaganzahra55@gmail.com ہے تو پھر جنگ ہی سہی
تحریر : اقراء ناز (دھرابی)