ہاسپٹل کے ماحول میں رہنا ایک ہولناک تجربہ رہا ہے۔ کوئی ایکسیڈنٹ کا مارا آرہا ہے، کسی بزرگ کو تکلیف نے ادھ موا کر چھوڑا ہے اور کئی کم نصیب تکلیف سے بے ہوش ہیں سرہانے کھڑے ہو کر دعائیں مانگنے والا کوئی نہیں اور کسی کے مر جانے پر رونے والا بھی کوئی نہیں۔
ہمت ہے ڈاکٹر لوگوں کی، وہاں کی فضا میں دن رات کاٹ لیتے ہیں، ہمیں تو جب بھی جانا ہوا وحشت لے کر لوٹے۔
جن دنوں ہم چچا کو لے ہاسپٹل میں تھے تو ساتھ والے بیڈ پر ایک بزرگ بے ہوش پڑے تھے۔ ان کے بیٹے دن رات ان کی کئیر میں لگے رہتے، مجال ہے جو ایک لمحے کے لئے بھی جدا ہوتے ہوں، لیکن بزرگ ان سے جدا ہوگئے۔
اور ایک بزرگ کے بیٹے نے باہر سے ہی پیسے بھیج دئیے تھے کہ ابے کو ٹھیک کروا لو، میرے پاس واپس آنے کا ٹائم نہیں۔ مادیت کی ہوس نے بھی ہم پر عجیب عذاب مسلط کئے ہیں، کہ ایک باپ اپنے بیٹے کو پالتا ہے، پوستا ہے، جوان کرتا ہے، اور پھر مادیت کے ہرکارے اس بچے کو پڑھانے آجاتے ہیں کہ تیرا والد تیری ترقی میں رکاوٹ بن کے کھڑا ہے۔ زندگی کے سرد و گرم سے بے نیاز ہو کر بیٹے کو پالنے والا، اپنے بیٹے کے گرمجوشی والے استقبال سے محروم محض کر دیا جاتا ہے۔
یہ خداوندان نظام افرنگ، جب کہیں طاقت میں آجائیں تو بوڑھوں کو اولڈ ہاوسز میں منتقل کر دیتے ہیں، کیوں کہ ان کے اپنے ہی بیٹوں کے لئے باپ کی نسبت نوکری بہر حال اہم ہوچکی ہے اور دل ان کا اس پر مطمئن ہے کہ اولڈ ہاوس میں باپ محفوظ رہتا ہے۔
کبھی سوچتا ہوں کہ خدا ایسی شدید تنہائی ہمیں نا دکھائے تو اچھا، جہاں انسان رشتوں کے احساس سے محروم ہو کر کسی مشینی زندگی کا آلہ بن کر رہ جائے۔ جہاں باپ بیٹے پر حاکم ہونے کی بجائے، کسی اولڈ ہاوس میں بیٹھ کر اس کی راہ تک رہا ہو، جہاں حاکمیت کے احساسات اچانک غلامی میں بدل جاتے ہیں، جہاں کاندھوں پہ کھیلنے والا لاڈلہ والد کا بوجھ کاندھوں سے اتار پھینکتا ہے۔ خدا نا دکھائے، مگر معاشرہ اسی گھٹن کا شکار ہونے جا رہا ہے۔
پھر کملی والا یاد آجاتا ہے، میں قربان آقا کی ذات پر، کہ باپ اپنی پوری حاکمیت کے ساتھ گھر کے سربراہ کے طور پر بیٹھا ہے۔ بیٹے کو والد کا فیصلہ غلط بھی لگتا ہے تو اپنی رائے دینے کے لئے کئی کئی دن لفظ ڈھونڈنے میں لگا دے، مبادا میرا والد ناراض نا ہوجائے۔ اور یہی ایک فرق ہمارا نظام افرنگ سے ہے، کہ یہاں بیٹا باپ سے بات کرتے ہوئے ڈرتا ہے اور وہاں باپ ہزاروں باتیں اس لئے بھی نہیں کر پاتا کہ بیٹا کہیں ناراض نا ہوجائے۔